Tuesday, November 17, 2015

In Fact It Is An Attack on Islam and Muslims یہ دراصل اسلام اور مسلمانوں پر حملہ ہے

 


مولانا اسرارالحق قاسمی
17 نومبر، 2015
دنیا کا کوئی بھی مذہب یا مہذب معاشرہ کسی بے قصور انسان کے ناحق قتل یا کسی بھی نوعیت کی دہشت گردی کی اجازت نہیں دیتا ہے اور نہ اسے جائز قرار دیتا ہے۔ اسلام نے تو ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل سے تعبیر کیا ہے۔ لہٰذا اگر دنیا کے کسی بھی خطہ میں اسلام کے نام پر کوئی ناحق قتل و غارت گری کررہا ہے تو یہ اسلامی تعلیمات کے بالکل برعکس تو ہے ہی ،ایسی حرکتیں انجام دینے والوں کو اسلام کا پیروکار یا مسلمان تک قرار نہیں دیا جاسکتا۔فرانس کے دارالحکومت پیرس میں گزشتہ جمعہ کو شب 40۔35 منٹ کے وفقہ میں لگاتار 7 دہشت گردانہ حملوں میں 129 سے زیادہ لوگ ہلاک اور زائد از 350 زخمی ہوگئے۔ قتل و غارت گری کے یہ بدترین واقعات انتہائی حد تک قابل مذمت ہیں، جن کی ذمہ داری اسلامک اسٹیٹ یعنی داعش نے لی ہے۔ یعنی یہ سب اسلام کے نام پر ہوا جو اور بھی قابل مذہب ، افسوسناک اور حد درجہ تشویشناک ہے، کیونکہ یہ طریق کار اور یہ گھناؤنی حرکت اسلام کے بالکل خلاف ہے۔ درندگی اور بربریت کے ان سلسلہ وار واقعات میں بد ترین واقعہ پیرس کے ایک ہال میں پیش آیا ، جہاں تقریباً ڈیڑھ ہزار افراد امریکی راک بینڈ کے ایک پروگرام سے لطف اندوز ہورہے تھے کہ اسی دوران چند نقاب پوش مسلح افراد نے وہاں گھس کر اندھا دھند گولیاں برسانا شروع کردیں۔ وہ چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے کہ ‘ یہ سب تمہارے صدر کی غلطی کیا نتیجہ ہے’ اسے شام میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے تھی ۔ ان چار بندوق برداروں نے چند ہی لمحوں میں 100سے زیادہ افراد کو موت کی آغوش میں پہنچا دیا اور سیکڑوں کو بری طرح زخمی کردیا ۔ پولیس کے پہنچتے ہی 3 حملہ آوروں نے خود کو خودکش دھماکہ سےاڑالیا جب کہ چوتھا اور آخری دہشت گرد پولیس کی گولیوں سے اپنے انجام کو پہنچا۔
بندو ق بردار دہشت گردوں کی دوسری ٹولی نے اس ہال سے چند سو میٹر کے فاصلہ پرایک ریستوراں کے قریب گولیاں برسائیں اور وہاں 5 لوگوں کو خاک وخون سے نہلا دیا۔ اسی طرح ایک اور حملہ فرانس کے نیشنل اسٹیڈیم کے قریب ہوا۔ اسٹیڈیم میں فرانس اور جرمنی کے بیچ ایک دوستانہ میچ کھیلا جارہا تھا ، جسے دیکھنے کے لیے فرانس کے صدر اور ان کے کابینہ کے ارکان سمیت 80 ہزار شائقین موجود تھے۔ اسٹیڈیم کے باہر اچانک 3 زوردار دھماکے ہوئے ۔ زیادہ افراتفری نہیں مچی ، لیکن صدر اور دیگر وی آئی پیز کو ہنگامی انداز میں وہاں سے نکالنا پڑا۔ اسٹیڈیم کے ہی قریب ایک حملہ ایک جاپانی ریستوراں پر ہوا، جس میں 18 افراد مارے گئے ۔ ایک اور حملہ ایک کمبوڈین ریستوراں میں بھی کیا گیا ، جس میں 10 افراد کے مارے جانے کی اطلاع ہے۔
یہ سلسلہ وار حملے انتہائی منظّم انداز میں کیے گئے ۔ پہلا حملہ شب 9 بج کر 20 منٹ پر ہوا اور 7واں اور آخری حملہ 9 بج کر 55 منٹ پر ہوا۔ یہ وہ وقت ہے جب پیرس شہر اپنے شباب پر ہوتا ہے جب کہ داعش کی جانب سے حملے کی دھمکیاں پہلے سے مل رہی تھیں ۔ فرانس کی سیکورٹی ایجنسیوں کو شبہ تھا کہ ان کے ملک پر ایک بار پھر خوفناک حملہ ہوسکتا ہے، جس طرح اس سال جنوری میں گستاخانہ کارٹون شائع کرنے والی میگزین شارلی ہیبڈو کے دفتر پر حملہ ہوا تھا، جس میں 17 افراد مارے گئے تھے ۔ چنانچہ وہ پوری طرح الررٹ تھیں اور نگرانی بڑھا دی گئی تھی ۔ اس سب کے باوجود صرف 7، دہشت گردوں کے ذریعہ محض زائد از نصف گھنٹہ کے وقفہ میں 7 الگ الگ مقامات پر اس قدر منظّم اور مربوط حملہ کیاجانا ظاہر کرتا ہے کہ یہ دہشت گرد تنظیم کتنی خطرناک ہوچکی ہےاور اب وہ سب کچھ کر گزر تی ہے جو چاہتی ہے۔ نیز یہ کہ اس کی سرگرمیاں عراق اور شام کی سرحدوں سے کافی دور نکل کر یوروپ تک پھیل چکی ہیں ، جو اس تنظیم کے اعلان کردہ ارادے کا حصہ ہے۔ داعش کی انسانیت سوز حرکتیں پوری دنیا کے لیے باعث تشویش توہیں ہی،مگر خاص طور پر عالم اسلام اور دنیا کے دیگر حصوں میں رہنے والے مسلمانوں کےلیے زیادہ باعث تشویش ہیں ۔ بظاہر داعش کا نشانہ مغرب ہے، لیکن اس کےحملوں سے سب سے زیادہ متاثر اسلام اور مسلمان ہورہے ہیں۔ پیرس پر حملے کو بھی دراصل اسلام اور مسلمانوں پر حملہ کہا جائے گا۔ اسلام دشمن طاقتوں نےدہشت گردی کو کامیابی سے اسلام سے جوڑ دیا ہے اور پوری دنیا نے بہت حد تک اس مفروضے کو سچائی کے طور پر تسلیم کرلیاہے۔ ایسے میں داعش کے حملے اور اس کی دیگر حرکتیں غیر مسلموں کی اس سوچ کو مزید تقویت بخشتی ہیں کہ نعوذ باللہ اسلام دہشت گردی کی ہی تعلیم دیتا ہے۔
آج مسلمان مغرب میں بڑی تعداد میں آباد ہیں اور اپنی تعلیم اور لیاقت کی وجہ سے وہاں خوشحال ہیں اور قدر و منزلت کی نگاہ سے بھی دیکھے جاتے ہیں۔ مسلمان ایسے ملکوں میں بھی اچھی خاصی تعداد میں موجود ہیں ، جہاں اکثریت غیر مسلموں کی ہے۔ آج اسلامی دنیا میں جو خلفشار مچا ہوا ہے ، اس کی وجہ سے بھی مسلمان دوسرے ملکوں میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔ بعض مغربی ممالک قابل تعریف ہیں کہ انہوں نے شام کے پناہ گزینوں کے لیے اپنے دروازے وا کیے ہیں ۔ داعش کی حرکتیں ایسے تمام مسلمانوں کے لیے مستقبل میں کافی نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہیں ، کیونکہ مغربی ممالک ان کےداخلے کو اگر ممنوع نہیں تو کم از کم اتنا پیچیدہ ضرور کرسکتے ہیں کہ جس کے نتیجے میں ان ممالک میں ان کاداخلہ عملاً بند ہی ہوجائے اور جو مسلمان وہاں پہلے سے آباد ہیں ان کو ہر جگہ شک و شبہ کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔
داعش کے خلاف تمام بڑے ممالک فضائی کارروائی کررہےہیں ۔ امریکہ نے تو اپنا بحری بیڑہ بحر عرب اور خلیج فارس میں تعینات کر رکھا ہے، جہاں سے جنگی جہاز پرواز کرتے ہیں اور داعش کے ٹھکانوں پر بمباری کرتے ہیں ۔ یہ سلسلہ تقریباً ڈیڑھ سال سے چل رہا ہے۔ اس کارروائی میں برطانیہ اور دیگر ممالک بھی شامل ہیں ۔ فرانس نے بھی داعش کے خلاف اس جنگ میں اسی سال ستمبر میں شمولیت اختیار کی ہے۔ پیرس پر داعش کا حملہ فرانس کی اسی شمولیت کا انتقام ہے ، جیسا کہ دہشت گردوں نے حملہ کے دوران کہا تھا ۔ اس حملہ کے بعد یہ ممالک اب داعش کے خلاف اور قوت جھونکنے کی بات کررہے ہیں ۔ زمینی حملے کی بھی باتیں کی جارہی ہیں ۔ داعش کے خلاف دنیا کی کیا حکمت عملی بنتی ہے، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن مغربی ملکوں کا رویہ ابھی تک یہ رہا ہے کہ وہ ایک تنظیم کی سرکوبی کے لیے اس کے متوازی ایک اور تنظیم تیار کرتے ہیں اور اسے اسلحہ فراہم کرتے ہیں۔ یعنی دہشت گردی کو کچلنے کےلیے دہشت گردوں کی ایک دوسری کھیپ تیار کرنے کی حکمت عملی پوری دنیا کےلیے نقصان دہ ثابت ہورہی ہے۔ تمام ممالک کو اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
17 نومبر، 2015 ،بشکریہ : روز نامہ راشٹریہ سہارا، نئی دہلی

No comments:

Post a Comment