Thursday, October 15, 2015

We Need Compassion, Not Violence ہمیں تشدد نہیں بلکہ ہمدردی اور محبت کی ضرورت ہے




سعد الدساری
12 اکتوبر 2015
چند ہفتوں پہلے، ایک باپ اور اس کے ایک نوعمر بیٹے کے تعلق سے ایک عجیب کہانی مقامی میڈیا میں شائع ہوئی تھی۔ مجھے معلوم نہیں کہ یہ کہانی میڈیا تک کیسے پہنچی، لیکن والد کے مطابق، اس کی شروعات تب ہوئی جب وہ اپنے بیٹے کو اس کے کسی کام پر "ڈانٹ" رہے تھے۔ اچانک لڑکا اپنے کمرے میں گیا اور ایک خنجر کے ساتھ باہر آیا اور کہا کہ وہ داعش کا نمائندہ ہے۔
والد وہاں سے فرار ہوئے اور فوراً پولیس کو بلا لائے۔ اس کے بعد انہوں نے اس لڑکے کو پکڑ لیا، جس نے کہا کہ وہ صرف اپنے والد کو اس کی پٹائی کرنے سے روکنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس کا مقصد صرف اپنے والد کو ڈرانا تھا اور وہ کسی بھی دہشت گرد گروپ میں یقین نہیں رکھتا ہے۔ لڑکے نے کہا کہ اس نے سنا تھا کہ داعش نے ایک دوسرے پر حملہ کرنے کے لئے ایک خاندان کے ارکان کو برانگیختہ کر دیا ہے، لہٰذا، اس نے اپنے والد کے دل میں خوف پیدا کرنے کے لئے یہ طریقہ اختیار کیا، تا کہ وہ دوبارہ کبھی اس کو مارنے کی کوشش کرنے سے پہلےہزار مرتبہ سوچیں!
پولس نے اس کی کہانی کی تصدیق کرنے کے بعد لڑکے کو یہ تنبیہ کرتے ہوئے رہا کر دیا کہ وہ ایسا دوبارہ کبھی نہیں کرے گا۔
یہ واقعہ تو یہاں ختم ہو جاتا ہے، لیکن اس سے بہت سارے سوالات پیدا ہوتے ہیں۔
سب سے پہلی بات یہ ہے کہ یہ دہشت گرد جماعتیں خود کو اور اپنے جرائم کو وسیع پیمانے پر مشہور کرنے میں کامیاب رہی ہیں۔ انہوں نے اپنے نظریات کی تشہیر کرنے اور ان کی ہولناکیوں کو عام کرنے کے لئے مختلف صورتوں میں میڈیا کا استحصال کیا ہے۔ وہ عالمی اخبارات کے صفحات پر اپنی خبروں کو پیش کر رہے ہیں۔ آپ جتنی زیادہ سے زیادہ چاہیں ان سے نفرت کر لیں، لیکن جب اگلے ہی پل آپ نیوز چینل، اخبار یا ریڈیو کھولیں گے تو        آپ کو ان کے بارے میں کچھ نہ کچھ پڑھنے یا سننے کے لیے ملے گا، جس سے آپ پریشان ہو جائیں گے۔
میں داعش کے تعلق سے ہمارے میڈیا کے جنونی لگاؤ کے بارے میں بس یہ گمان ہی کر سکتا ہوں کہ کیا اس سے اسے کچھ فوائد، کسی طرح کی مفت مارکیٹنگ اور نمائش حاصل ہوئی ہے۔ جب میں "ہم" کہتا ہوں تو اس سے میری مراد ہمارا مقامی میڈیا، عرب، مسلم اور بین الاقوامی میڈیا ہوتا ہے۔ داعش کی خبروں، تنظیمی ڈھانچے، فنڈز کے ذرائع، خواتین اور خون کے ساتھ ان کے لگاؤ کی اشاعت ہم سب کو ان کی سرگرمیوں اور سفاکانہ طریقوں سے آگاہ رکھتی ہے۔ مثال کے طور پر، اب تک، اکثر عربی ذرائع ابلاغ کے مراکز اس جماعت کو "اسلامی ریاست" کے نام سے ہی ذکر کرتے تھے، اس کے بعد انہیں اس بات کا احساس ہوا کہ اس نام کو مسلسل دہرا کر وہ عوام الناس کے دلوں اور ذہنوں میں اسلام اور اس دہشت گرد گروپ کے درمیان ایک ربط کو تقویت فراہم کر رہے تھے۔ ویسے بھی دہشت گرد گروہ اس نام کو منتخب کر کے اسلام کے ساتھ خود کو مربوط کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اب، میڈیا اس گروپ کو داعش کے نام سے پکارتا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ، باپ بیٹے کی اس کہانی میں ہمیں اس ماحول پر تبادلہ خیال کرنے کی ضرورت ہے جس میں وہ مجرم اپنے منصوبوں کو فروغٖ دیتے ہیں اور ان پر عمل درآمد کرتے ہیں۔ ہم سالوں سال سے اس بات کو تلاش کرنے کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں کہ اس طرح کی دہشت گرد جماعتیں کس طرح ہمارے بچوں کو اپنے گروپ میں شامل ہونے پر لبھانے میں کامیاب ہو رہی ہیں؟ ہمارے پاس اب بھی اس کا ایک حتمی جواب نہیں ہے، اور ہم اب ان نوجوان مردوں کے ساتھ جدوجہد کر رہے ہیں جو سب کچھ چھوڑ کر دہشت گرد جماعتوں میں شامل ہونے کے لئے تیار ہیں، اور ان میں سے کچھ تو خود کش حملوں میں خود کو دھماکے سے اڑانے کے لیے بھی تیار ہیں۔
میری رائے میں، تشدد کو پروان چڑھانے والے عناصر میں سے ایک عنصر اس عمل کے تئیں نرمی برتنا ہے۔
عرب ثقافت میں تشدد کی طرف رجحان کو مردانگی اور بہادری کی ایک علامت سمجھا جاتا ہے۔ لڑائی اور جنگ و جدال میں مشغول ہونا نوجوانوں کے لئے ایک عام بات ہے۔ انہیں خود کا دفاع کرنے کی تربیت دی جاتی ہے۔ جیتنے والے کو شجاع اور بہادر کہہ کر اس کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ خنجر دکھا کر اپنے باپ کو دھمکی دینے والے لڑکے کی کہانی افسوسناک اور ناقابل قبول ہے۔ لیکن، ساتھ ہی ساتھ یہ بات بھی عجیب ہے کہ ایک باپ اپنے 16 سالہ بیٹے کو ڈانٹ رہا تھا یا اس کی پٹائی کر رہا تھا۔ 16 سال کی عمر میں ہی لڑکے کو مارنا یا اسے ڈانٹنا اس بات کی طرف ایک اشارہ ہے کہ لڑکا گھر میں ہی تشدد کا عادی ہو چکا ہے۔ یقیناً، اس کی تفصیلات جانے بغیر اس خاص کہانی کے بارے میں کوئی فیصلہ کرنا مشکل ہے، لیکن میں صرف ایک مثال کے طور پر اس کا حوالہ پیش کر رہا ہوں۔
ہمیں دہشت گرد جماعتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کا مقابلہ صرف اصول و نظریات اور تعلیم کے ساتھ ہتھیاروں اور فضائی حملوں کے ذریعہ ہی کیا جا سکتا ہے۔ ہمیں دہشت گرد جماعتوں کے ساتھ یا ان کے نظریات کو فروغ دینے والوں کے ساتھ نمٹنے میں ہمارے نقطہ نظر کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے، اور ہمیں اپنے معاملات میں ہمدردی اور محبت کی روایت کو بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اس طوق کو توڑنے کی ضرورت ہے جس نے ہمیں جکڑے رکھا ہے اور مہذب دنیا میں مقابلہ آرائی کرنے سے ہمیں روک رکھا ہے۔
ماخذ:
arabnews.com/columns/news/819086

No comments:

Post a Comment