Monday, September 21, 2015

The Salafi war on Sufism تصوف کے خلاف سلفی جنگ




شیل مریم
27 مئی 2015
طاقتور "صوفی فلسفہ سلفی اور دیگر علیحدگی پسند نظریات کے خلاف مزاحمت کا سب سے اہم ذریعہ ہے۔"
غیرمسلح اہل تصوف اور سلفیوں کے درمیان اسلام میں ایک نئی خانہ جنگی اپنا سر بھار رہی ہے۔
بہت سے لوگ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کو سیموئیل ہنٹنگ ٹونین کی پیشن گوئی مانیں گے؛ امکان غالب ہے کہ اس کا مشاہدہ کرنے والے اسے ایک باطل مفروضہ قرار دیں گے۔ اسلام کے اندر واضح طور پر بہت سی دراریں موجود ہیں جو بہت تیزی کے ساتھ گہراتی جا رہی ہیں۔ ان میں سے ایک مسلم دانشوروں پر حملے اور اختلاف رائے کو دبانے کی کوششیں ہیں۔ دوسرا، شیعہ اور سنی کے درمیان پولرائیزیشن موجود ہے جس کی بنیادی وجہ اسلام کو سنیت کے رنگ میں ڈھالنے کا عمل ہے جو کہ 20ویں صدی کے ابتدائی ادوار سے ہی جاری ہے۔
تاہم، سر اٹھاتی ہوئی خانہ جنگی اہل تصوف اور سلفیوں کے درمیان ہے۔ اس کی ابتداء 19ویں صدی میں اس وقت ہوئی جب وہابیوں نے عرب میں قبروں پر حملہ کیا (وہابی خود کو سلفیوں سے الگ کرتے ہیں)۔ سلفی یا "ابتدائی اسلام پر عمل پیرا مسلمان " ہونے کا دعوی کرنے والی جماعتوں میں اضافہ کی وجہ سے اس میں گزشتہ دو دہائیوں کے درمیان کافی شدت پیدا ہو گئی ہے۔ یہ جماعتیں ایک خالص اور تمام بدعات سے پاک اسلامی معتقدات کا دعویٰ کرتی ہیں۔
اہل تصوف کا محاصرہ
میں نے گزشتہ چند سالوں میں ایسے کئی صوفی مزارات اور مقبروں کا دورہ کیا ہے جو سابق عثمانی اور مغل سلطنتوں کے علاقوں میں واقع ہوتی ہیں۔ صوفیوں سے وابستہ یہ وسیع علاقے خطرے کی زد میں معلوم ہوتے ہیں۔ افغانستان، پاکستان، مصر، الجیریا، مراکش اور تیونس میں صوفی مزارات اور مقبروں کو مختلف طریقوں سے نشانہ بنایا گیا ہے۔
ابھی حال ہی میں، تیونس کے دورے کے دوران میں نے سیدی بو سعید اور سیدی منوبہ کے مزارات کا دورہ کیا جنہیں سلفیوں نے اپنے حملوں کا نشانہ بنایا۔ تیونس-قرطاج سے ملحق صوفی سیدی بو سعید کے نام سے منسوب ایک پڑوسی شہر ہے جو سفید اور نیلے رنگ میں اس کے شاندار فن تعمیر کے لئے پوری دنیا میں مشہور ہے۔ وہاں کے بازار میں، اتوار کی دوپہر کو جب ہم موجود تھے تو ہم نے ایک بڑی تعداد میں ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کو وہاں جمع ہوتا ہوا ددیکھا۔ صرف چند لوگوں نے ہی وہاں کے مقبروں اور خانقاہوں کی زیارت کی۔ لیکن یہ بالکل وہی جگہ تھی جس کی مجھے تلاش تھی۔
2015 میں تیونس بن علی کی آمرانہ حکومت کے خلاف انقلاب کے نتیجے میں جمہوریت کے لئے جدوجہد کرنے والی ایک مابعد نوآبادیاتی معاشرہ ہے جس میں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ وہاں اسلام پرستی کی بھی ایک کالی چھایا منڈلا رہی ہے، جو کہ بردو میوزیم پر بمباری سے عیاں ہے۔
تیونس میں قیام کے آخری دن ہمیں ایک عظیم صوفی اور بزرگ ابو الحسن الشاذلی کے مزار کی زیارت کرنے کا موقع مل ہی گیا، جنہیں عام طور پر امام الشاذلی یا سیدی ابی الحسن طور پر جانا جاتا ہے۔ یہ یہ ایک شاندار تجربہ تھا۔ اور جب میں ہال میں داخل ہوئی تو تمام عورتیں ذکر و اذکار میں مصروف تھیں۔ مردوں کے لیے ایک بیرونی کمرہ مخصوص تھا اور اندرونی ہال صوفی ابو الحسن الشاذلی کے ذکر و اذکار میں خواتین کی آواز سے گونج رہا تھا۔ ذکر کے کئی معنی ہیں جس میں نماز اور تعریفی کلمات کا باربار دہرانا بھی شامل ہے۔ یہاں بھی 'اوم' یا بدھ مت کے کسی منتر کی طرح بار بار 'اللہ اکبر' اور 'اکبر، اکبر، اکبر' کی صدائیں گونج رہی تھیں۔ میں ورلڈ سوشل فورم 2015 میں ایک پینل میں شرکت کرنے کے لیے تیونس آئی تھی، جو کہ اسلام اور جمہوریت پر ایک بڑی عالمی بحث و مباحثہ کا آغاز کرنے کے لیے ساؤتھ ایشین ڈائیلاگز آن ایکولوجیکل ڈیموکریسی کے اقدام کا ایک حصہ ہے۔ میری گفتگو کا عنوان برصغیر ہندوستان میں چشتی، قادری مداری اور دیگر آزاد صوفیاء کا اخوت پر مبنی فلسفیانہ تعاون تھا۔ چشتی اور قادری سلسلے سلسلہ شاذلیہ سے بڑے گہرے طور پر منسلک ہیں جو کہ مصر، تیونس، الجزائر اور مراکش میں ایک اہم سلسلہ ہے۔ سیدی ابی الحسن سلسلہ شاذلیہ کے ایک صوفی بزرگ تھے، جو مراکش سے آ کر 1227 عیسوی میں تیونس میں اپنا سب سے پہلا زاویہ قائم کیا ۔ اور ہندوستان میں حضرت خواجہ معین الدین چشتی نے افغانستان سے آ کر پہلے ہی سلسلہ چشتیہ قائم کر دیا تھا۔ کچھ شاذلی اور چشتی صوفیاء نے فلسفہ تصوف پر کتابیں بھی لکھیں ہیں۔
یک طرفہ جنگ
اس صورت میں یقیناً یہ ایک بڑا سوال ہے کہ اہل تصوف اور سلفیوں کے درمیان نفرت اسلام میں خانہ جنگی کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے۔ اور اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ یہ ایک یکطرفہ جنگ ہے، اس لیے کہ دوسرا فریق حملے کا شکار ہے اور اس کے پاس ایک اجتماعی جوابی حملہ کے لئے کوئی حکمت عملی بھی نہیں ہے۔ لیکن ہمیں یہ جاننے کے لیے کہ کس طرح سلفی اور دیگر علیحدگی پسند نظریات کے خلاف مزاحمت میں صوفی فلسفے نے بنیاد فراہم کی ہے ابتدائی صوفیاء اور قرون وسطی کی تصوف کی کتابوں کا جائزہ لینا ہے ۔ وہ اس دور کا حوالہ دیتے ہیں جب مذہب اور فلسفے کو الگ نہیں کیا گیا تھا۔ اس فلسفے سے یونانی، ہندو اور بدھ مت فلسفے کے ساتھ اسلام کے تہذیبی مکالمے کا بھی اشارہ ملتا ہے۔
چند سال پہلے، میں نے پاکستان، میں داتا صاحب کے نام سے مقبول ایک عظیم صوفی ابوالحسن علی ہجویری (990/1077) کے مزار کی زیارت کی تھی، جسے اب 2010 میں بم حملے کے بعد بند کر دیا گیا ہے۔ ابوالحسن علی ہجویری فارسی میں کشف المحجوب نامی ایک کتاب کے مصنف ہیں، جس کا درس فلسفی غزالہ عرفان مینجمنٹ سائنسز لاہور یونیورسٹی میں دیتی ہیں۔ میں نے پاکپتن کا ایک اور دورہ کیا تھا جہاں ایک عظیم چشتی صوفی بابا فرید کے مزار پراسی طرح کا حملہ کیا گیا تھا۔ بابا فرید نے یروشلیم کا بھی دورہ کیا تھا۔ ان کی جائے مراقبہ کے ارد گرد ایک ہندوستانی خانقاہ تعمیر کی گئی ہے، جس کا خوبصورتی کے ساتھ ذکر نوتیج سرنا کی حالیہ کتاب (Indians at Herod’s Gate: A Jerusalem Tale) میں موجود ہے۔
آتش زنی یا حملوں کے ذریعہ کیا تباہ نہیں کیا جا سکتا، تاہم، ان صوفی بزگوں کے نظریات بھی اتنے ہی طاقتور ہیں جن میں سلفی نظریات کا مقابلہ کرنے کی طاقت ہے۔ بھارت میں معین الدین چشتی، قطب الدین بختیار کاکی، حمید الدین ناگوری، نظام الدین اولیاء اور نصیرالدین چراغ دہلوی سمیت مشہور صوفیوں کے ایک تسلسل کے بعد سلسلہ چشتیہ کی ترویج و اشاعت جنوبی ہند دکن میں خواجہ سید شیخ الاسلام سید محمد الحسینی نے کی جنہیں عام طور بندہ نواز گیسو دراز کے نام سے جانا جاتا ہے (1321-1422)۔ فلسفہ تصوف پر ان کی معرکۃ الآرا کتاب معارف العوارف سلسلہ سہروردیہ کی ایک بنیادی کتاب کی شرح ہے۔ اس میں جہاں دوسرے صوفی افکار و نظریات ہیں وہیں یہ ایک اخلاقی اصول بھی بیان کیا گیا ہے کہ وہ شخص خدا سے محبت نہیں کر سکتا جو اس کی پیدا کردہ تمام مخلوقات سے محبت نہ کرے۔ اس کتاب کی صرف پہلی جلد کو حال ہی میں دائرۃ المعارف العثمانیہ، حیدرآباد نے شائع کیا ہے، جس کی تدوین محمد مصطفی شریف نے کی ہے۔ یہ اسی شاذلی تعلیم کی طرح ہے کہ خدا ہر جگہ موجود ہے تمام مخلوق میں اس کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔
لہٰذا، یہ اسلام میں ایک طرح کی خانہ جنگی ہے۔ صرف فرق یہ ہے کہ اس جنگ میں ایک فریق صرف محبت رحمت اور جذبہ انسانیت سے لیس ہے۔
ماخذ:
thehindu.com/opinion/op-ed/civil-war-in-islam-between-the-unnarmed-sufis-and-the-salafis/article7248504.ece

No comments:

Post a Comment