Monday, September 21, 2015

Shah Waliullah’s Islamic Reformation in 18th Century India اٹھارہویں صدی کے ہندوستان میں شاہ ولی اللہ کی اصلاحی تحریک: صوفی یا وہابی؟






غلام رسول دہلوی، نیو ایج اسلام
24 اپریل 2015
18ہویں صدی میں اسلام کو زبردست اندرونی مسائل کا سامنا تھا۔ قرآن اور حدیث کی بدعنوان تفہیم، مساوات پر مبنی اسلامی اقدار کی فراموشی، فرقہ وارانہ تنازعات، اخلاقی زوال، ذات پر مبنی تعصبات اور بہت سی سماجی برائیاں مسلم معاشرے میں سرایت کر چکی تھیں۔ اس کے علاوہ، ہندوستان کی مسلم سلطنت سیاسی طور پر بتدریج رو بہ زوال تھی۔ مسلمان حکمران، فقہاء اور علماء بھی اخلاقی زوال کا شکار تھے۔ وہ قرآنی اخلاقی ہدایات اور احادیث سے مکمل طور پر غافل ہو چکے تھے۔ مسلم علماء اور فقہاء اجتہاد کے دروازے بند کر چکے تھے۔ مسلمان امراء اور اشرافیہ پر تعیش زندگی کی لطف اندوزی میں مصروف تھے۔ عام نوجوان مسلمانوں کی صورت حال بدتر تھی۔ انہوں نے اپنے تمام اقدار کو اپنی نفسانی خواہشات کے حصول کے لیے وقف کر رکھا تھا۔ اس صورت حال میں، شاہ ولی اللہ نے ہندوستان میں اسلامی اصلاح کے مشن کا آغاز کیا اور ہندوستانی مسلم معاشرے اور سیاست کی، اخلاقی اور مذہبی بحالی پر اپنی کوششوں کو مرکوز کیا۔ لہذا، اٹھارویں صدی کے ہندوستان میں اسلامی اصلاح کی تحریکیں بنیادی طور پر شاہ ولی اللہ دہلوی سے منسوب ہیں۔
شاہ ولی اللہ دہلوی کے قابل ذکر اصلاحی کام
شاہ ولی اللہ کے کاموں کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا: (1) دانش ورانہ اصلاح (2) نظریاتی اصلاح (3) سیاسی اصلاح۔ اگرچہ، شاہ ولی اللہ نے اپنے دور کی سیاست کے ساتھ بھی خود کو جوڑے رکھا اور انہوں نے ایک مضبوط مسلم حکومت کا نظریہ پیش کیا، لیکن انہیں بنیادی طور پر ہندوستانی مسلمانوں کی مذہبی اصلاح میں ان کے تعاون کے لئے یاد کیا جاتا ہے۔ شاہ ولی اللہ کے قابل ذکر اصلاحی کارناموں میں فارسی میں قرآن مجید کا ترجمہ بھی شامل ہے۔ وہ اس وقت کے برصغیر کی ادبی زبان میں قرآن مجید کا ترجمہ کرنے والے پہلے ہندوستانی عالم تھے۔ ان کا ماننا تھاکہ قرآن پڑھنے کا مقصد انسانی فطرت کی اصلاح اور غلط معتقدات و معمولات کی تصحیح کرنا ہے۔ فارسی میں قرآن مجید کے ان کے ترجمہ کے لیے اس وقت کے قدامت پسند مسلم علماء نے زبردست تنقید کی تھی۔
ایک شاندار محدث ہونے کی وجہ سے انہوں نے علم حدیث پر کئی بنیادی کتابیں تصنیف کیں، جن میں خاص طور پر عربی اور فارسی میں احادیث کے ایک مجموعہ "موطا امام مالک" پر ان کا حاشیہ قابل ذکر ہے۔ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ شاہ ولی اللہ ہندوستان میں سب سے پہلے ایسے عالم دین اور فقیہ ہیں جنہوں نے ایک مذہبی نقطہ نظر سے اس وقت کے انتہائی پیچیدہ مسائل کو حل کرنے کے طریقے تلاش کرنے کے لئے اجتہاد کی ضرورت پر زور دیا۔
اجتہاد پر ان کی تاکید کا ہی نتیجہ ہے کہ ممتاز علماء اور تقریبا تمام ہندوستانی مسلم فرقوں کے فقہاء نے خود کے بارے میں ان کے علمی وارث اور سچے پیروکار ہونے کا دعوی کیا ہے۔ ان میں سے ہر ایک اپنے مذہبی موقف کو ثابت کرنے کے لئے صحیح یا غلط طریقے سے ان کا حوالہ پیش کرتے ہیں۔ کافی حیرت کی بات ہے کہ دیوبند اور اہل حدیث کے قدامت پسند علماء سے لیکر سر سید احمد خان، مولانا ابوالکلام آزاد، اور سر محمد اقبال جیسے تقریبا تمام جدت پسند علما اور مسلم دانشوروں نے ان کی طاعت و پیروی کا ایک مضبوط دعویٰ کیا ہے۔ تاہم، شاہ ولی اللہ کے ساتھ خود کو منسلک کرنے کے ان کے نقطہ ہائے نظر بالکل مختلف تھے۔ سر سید اور مولانا آزاد جیسے مسلم جدت پسند علماء اور مفکرین نے اندھی تقلید کی تردید اور اصلی سوچ و فکر اور اجتہاد (انفرادی استدلال) کی تائید و توثیق کے ان کے نقطہ نظر پر توجہ مرکوز کیا ہے، دیوبندی سلفی علماء نے شاہ ولی اللہ کے علم حدیث اور شریعت اور فقہ اسلامی پر سختی کے ساتھ عمل پیرا ہونے کے ان کے نقطہ نظر پر زور دیا ہے۔ سر سید احمد خان جیسے ہندوستان میں بہت سے جدت پسند مسلم علماء کے افکار و نظریات کا جائزہ لینا دلچسپ ہو گا جو عقلیت پسند اور اصلاح پسند نظریات کے تو حامل تھے لیکن پھر بھی شاہ ولی اللہ کی روایت پر عمل پیرا تھے۔
جہاں تک سنی صوفی علماء کا تعلقا ہے تو وہ زیادہ تر شاہ ولی اللہ کے روحانی رجحان اور خاص طور پر نقشبندی صوفی سلسلے سے ان وابستگی سے متاثر تھے۔ لہذا، انہوں نے ان کی ایک روحانی پیشوا کی حثیت سے عزت افزائی کی۔ صرف سنیوں کی ہی بات نہیں ہے، کئی اہل تشیع بھی ان کے اصلاحی کارناموں کی تعریف کرتے ہیں۔ شیعہ اور سنی کے درمیان فرقہ وارانہ کشیدگی کو کم کرنے اور ان کے درمیان موجود خلا کو پر کرنے کی ان کی کوششوں کو ہندوستان میں ایک قسم کی اسلامی اصلاح مانا جاتا ہے۔ ایک ایسے وقت میں کہ جب شیعہ سنی تنازعات عروج پر تھے، اس موضوع پر ان کی تحریروں، اور خاص طور پر "ازالۃ الخفاء" نامی ان کی کتاب نے اس وقت شیعہ سنی کشیدگی کو کم کرنے میں ایک اہم کردار ادا کیا تھا۔ اس کے علاوہ، انہوں نے مسلمانوں کے مختلف گروہوں کے درمیان زبردست فرقہ وارانہ کشیدگیوں کو ختم کرنے کی کوشش کی اور حکومت کو کمیونٹی کی تخلیق نو کے لئے ایک لازمی ادارہ مانا۔
فقہی مسائل میں شاہ ولی اللہ نے راہ اعتدال کی حمایت کی۔ انہوں نے متنازعہ فقہی معاملات میں روایت حدیث کے بجائے قرآنی آیات کو ترجیح دی۔ قرآن اور سنت کی تشریح کرنے میں ان کا نقطہ نظر متوازن اور قرون وسطی کے اماموں کی اندھی تقلید اور محدثین پر اندھے اعتماد کے خلاف تھا۔ اگر چہ شاہ ولی اللہ نے بظاہر معتقدات اور فقہ میں اندھی تقلید کی تنقید کی اور "اجتہاد کے دروازے کو بند کرنے" پر اعتراض بھی کیا، لیکن انہوں نے اس بات کا بھی خیال رکھا کہ اجتہاد کا دروازہ سب کے لیے کھلا ہوا نہیں ہے۔ بلکہ، ان کا ماننا تھا کہ صرف ضروری صلاحیتوں کے ساتھ اسلامی علوم پر اچھی طرح مہارت رکھنے والے لوگ ہی اجتہاد کر سکتے ہیں۔ اجتہاد پر شاہ ولی اللہ کی تاکید اور اصرار کا اندازہ جدید دور کے مطابق شریعت یا اسلامی قانون کی تجدید کی ان کی کوششوں میں عیاں ہے۔
شاہ ولی اللہ مسلم کمیونٹی میں ایک سماجی مصلح کے طور پر بھی مشہور ہیں۔ ان کی بعض تحریروں کا مقصد سماجی عدم مساوات کو ختم کر کے اور دولت کے اشتراک میں توازن پیدا کر کر کے بنیادی سماجی انصاف کے تصورات پر مبنی ایک مسلم معاشرے کی تشکیل کرنا ظاہر ہوتا ہے۔ اپنی کتاب حجت اللہ البالغہ میں انہوں نے مسلم معاشرے کی پسماندگی اور زوال کے اسباب اور ان کے تصفیہ کا ذکر کیا ہے۔
شاہ ولی اللہ کی سماجی اور سیاسی اصلاحات کے کاموں کا ذکر کرتے ہوئے، ایس ایم اکرام چغتائی لکھتے ہیں: "اس ڈر کے پیچھے درست وجوہات تھیں کہ مذہبی زوال کے ساتھ ہی مسلمانوں کا سیاسی شیرازہ بھی منتشر ہو جائے گا۔ لیکن صرف ایک انسان کی وجہ سے ایسا نہیں ہوا"۔(Shah Waliullah: His Religious and Political Thought by M. Ikram Chaghatai)۔
کیا شاہ ولی اللہ صوفی تھے یا وہابی تھے؟
شاہ ولی اللہ کے فقہی مسلک اور مشرب کے بارے میں بہت زیادہ اختلافات پائے جاتے ہیں۔ ان کے اکثر افکار و نظریات سے ہمیں اس بات کا اندازہ ملتا ہے کہ ان کا تعلق ایک صوفی خاندان سے تھا اور ان پر تصوف کی تعلیمات کا رنگ غالب تھا۔ لیکن ان کی کچھ تحریروں سے جو جدید تحقیق میں پیش کی جاتی ہیں اور جنہیں تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے، یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ وہابیت سے متاثر تھے........ اور شاید یہی وجہ ہے کہ ان کے افکار و نظریات اور ان کی تحریروں کو برصغیر میں بنیاد پرستی کے فروغ کی وجہ مانا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر، ڈاکٹر فرحان زاہد نے "جنوبی ایشیا میں بنیاد پرست اسلامیت پسند نظریات کی بنیادیں" کے عنوان سے اپنے پی ایچ ڈی کے مقالہ میں لکھا کہ ‘‘شاہ ولی اللہ عرب کی وہابی تحریک سے متاثر تھے۔ در اصل وہ 18ہوں صدی میں بنیاد پرست عرب اسلامی تحریک کے رہنما ابن الوہاب نجدی کے معاصر تھے۔ ولی اللہ نے سفر حج کے دوران ذاتی طور پر عرب عبد الوہاب سے ملاقات بھی کی تھی۔ وہ عبد الوہاب کی تحریروں اور افکار و نظریات سے بہت زیادہ متاثر تھے۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ ‘‘ولی اللہ کی تحریریں بنیاد پرستی کا نقیب ثابت ہوئی ہیں ۔ انہوں نے مغل ہندوستان کے نیم سیکولر زمانے میں موجودہ مسلم سیاسی فکر و نظر میں ایسی سیاسی فکر و نظر کی بنیاد ڈالی جو اس سے پہلے مفقود تھے۔"
جمیل احمد اپنی کتاب "سو عظیم مسلمان" میں ایک ذیلی عنوان "شاہ ولی اللہ" کے تحت لکھتے ہیں۔ "اپنی ابتدائی عمر میں ہی شاہ صاحب پر ایک عظیم مذہبی مصلح ابن تیمیہ کے افکار و نظریات کا گہرا اثر تھا۔ حجاز میں اپنے قیام کے دوران ان کا رابطہ ان علماء کرام کے ساتھ ہوا جو وہابیت سے متاثر تھے۔ اس سے انہیں صوفی ازم کی بند آنکھوں سے پیروی کا احتساب کرنے کا موقع ملا۔ لیکن وہابیوں کی طرح انہوں نے مکمل طور پر تصوف کو مسترد نہیں کیا۔ وہ برصغیر میں اسلام کو مقبول عام و خاص بنانے میں صوفیوں کی خدمات اور صحیح معنوں میں اسلامی تصوف کے ذریعہ تیار کردہ روحانی خودی سے واقف تھے۔ لیکن وہ زوال پذیر اور روایتی تصوف کے بارے میں بہت محتاط تھے جو کہ رہبانیت کادروازہ کھولتا ہے، اور اس وجہ سے یہ حقیقی اسلام کے خلاف ہے۔ اپنے وصیت نامہ میں وہ لکھتے ہیں: "اور اگلی وصیت یہ ہے کہ کسی کو نہ تو اپنے معاملات کو اس زمانے کے صوفیوں کے حوالے کرنا چاہیے اور نہ ہی ان کا شاگر د بننا چاہیے جنہوں نے بے شمار ضابطگیوں کو جنم دیا ہے"۔
 ڈاکٹر فرحان زاہد ‘‘جنوبی ایشیا میں بنیاد پرست اسلامیت پسند نظریات کی بنیادیں’’ کے عنوان سے اپنے پی ایچ ڈی مقالہ میں لکھا کہ: ‘‘ولی اللہ کی تحریریں بنیاد پرستی کا نقیب ثابت ہوئی ہیں ۔ انہوں نے مغل ہندوستان کے نیم سیکولر زمانے میں موجودہ مسلم سیاسی فکر و نظر میں ایسی سیاسی فکر و نظر کی بنیاد ڈلای جو اس سے پہلے مفقود تھے۔"
عائشہ جلال کے مطابق، "ایک زمانے میں ایک مسلم جدت پسند اور سنی مکتبہ فکر کے معمار کےطور پر مشہور، شاہ ولی اللہ نے ایک ایسی دانشورانہ وراثت چھوڑی ہے جس کا سایہ بعد کے زمانے میں اصولی اور عملی طور پر جہاد کی تمام تشریحات پر ایک طویل عرصے تک قائم رہا"۔ (‘‘Partisans of Allah: Jihad in South Asia’’، سنگ میل مطبوعات، لاہور، صفحات 15-16)
آر اپادھیائے اپنی کتاب " Shah Wali Ullah's Political Thought: Still a Major Obstacle against Modernization of Indian Muslims" (South Asia Analysis Group، پیپر نمبر 629۔) میں لکھتے ہیں کہ:نظریاتی اعتبار سے ولی اللہ سعودی عرب کے اپنے معاصر اسلامی مفکر عبد الوہاب سے مختلف نہیں تھے، جنہوں نے ایک اسلامی تجدیدی تحریک کا آغاز کیا تھا (1703-1787)،۔ عبدالوہاب انتہائی بنیاد پرست اسلام پسندوں میں سے ایک ہیں جن کے پیروکاروں کی تعداد ہندوستان میں بہت بڑی ہے"۔
تاہم، شاہ ولی اللہ کو برصغیر کے بہت سے مسلم حلقوں میں ایک صوفی عالم کے طور پر جانا جاتا ہے۔ ہندوستان کے اکثر سنی صوفی مسلمان شاہ ولی اللہ کو ایک اصلاح پسند صوفی مانتے ہیں۔ وہ تصوف کے اہم مسائل میں ان کے تعاون کی تعریف کرتے ہیں، مثال کے طور پر وحدت الوجودبمقابلہ وحدت الشہود کا نظریہ۔ حقیقت یہ ہے کہ شاہ ولی اللہ نے اسلام میں ابن تیمیہ کی راسخ الاعتقادی اور صوفیوں کی اسلامی الحاد کے درمیان ایک توازن پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کا ماننا تھا کہ اسلام کے دو اہم پہلو ہیں۔ اس کا خارجی پہلو عوامی فلاح و بہبود سے کے تحفظ سے متعلق ہے لیکن اس کا باطنی پہلو نیک اعمال کے ذریعے صفائے قلب و باطن کے ساتھ متعلق ہے۔

No comments:

Post a Comment