Thursday, July 30, 2015

Muslim Identity: The Irony of History مسلم شناخت :المیہ تاریخ

Muslim Identity: The Irony of History مسلم شناخت :المیہ تاریخ



ڈاکٹر مبارک علی
مسلم شناخت
ابتدائیہ
بر صغیر ہندوستان میں مسلم شناخت کو سماجی سیاسی اور مذہبی شعور کی بنیادوں پر تلاش کیا جاسکتاہے ۔ اور انہیں بنیادوں پر اس کا تجزیہ بھی کیا جاسکتا ہے ۔ جہاں تک سماجی طور پر مسلمان معاشرے کا تعلق بنیادوں پر اس کا تجزیہ بھی کیا جاسکتاہے ۔ جہاں تک سماجی طور پر مسلمان معاشرے کا تعلق ہے تو یہ کبھی بھی ہندوستان میں متحدنہیں رہا  ، اسی طرح مذہبی طور پر بھی مسلمانوں کے اتحاد کو وقتاً فوقتاً سیاسی ضرورتوں کے تحت ابھارا جاتا تھا ۔ مثلاً جب مسلمان حکمرانوں کو ہندوؤں سے جنگ کرنی پڑتی تھی تو اس وقت وہ مذہبی طور پر مسلمانوں کو متحد کرنے کے لئے مذہبی نعرے بلند کرتے تھے اور حکمران طبقے عام مسلمانوں کے جذبات کو اس طرح ابھارتے کہ جیسے ان کی حکومت اور تخت و تاج نہیں بلکہ اسلام اور اس کے ماننے والے خطرے میں ہیں ۔ لیکن جیسے ہی خطرات ٹلتے تو وہ اسلام اور شریعت کو بھول جاتے تھے اور جب بھی شریعت ان کے مطلق العنان طرز حکومت میں رکاوٹ بنتی تو یہ اسے فراموش کردیتے تھے ۔ اس لئے بر صغیر ہندوستان میں مسلمانوں کی مذہبی شناخت موجود تو تھی ۔ لیکن اسے صرف سیاست کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا ۔ اور ضرورت ختم ہونے کے بعد اس سےغفلت برتی جاتی تھی ۔
جہاں تک مسلمانوں میں سیاسی شناخت کا مسئلہ ہے تو یہ برطانوی دور حکومت میں پیدا ہوئی کہ جب ہندوستان میں جمہوری ادارے، روایات اور قدریں آئیں او راس کے ساتھ ہی مسلمانوں میں شدت کے ساتھ یہ احساس بھی ہوا کہ جمہوری نظام حکومت میں وہ اقلیت میں رہتے ہوئے کبھی بھی اقتدار حاصل نہیں کرسکیں گے ۔ اور اس طرح وہ ہمیشہ کے لئے ہندو اکثریت کے رحم وکرم پر رہیں گے ۔ اس لئے ہندوستان کی سیاسی جد و جہد میں ان کے سامنے اقلیت اور اکثریت کا سوال تھا اور اسی نے آگے چل کر اقلیت کے کمپلکس سے نجات دلاکر دو قومی نظریے کو پیدا کیا کیونکہ اقلیت اکثریت کے مقابلے میں کبھی بھی اہمیت اختیار نہیں کرسکتی تھی ۔ مگر جب انہوں نے خود کو ایک قوم کہا تو پھر مساوی بنیادوں پر انہوں نے حقوق کا مطالبہ کیا ۔ اور یہی مطالبہ آگے چل کر ہندوستان کی تقسیم کی شکل میں ظاہر ہوا۔
کیونکہ شمالی ہندوستان میں مسلمانوں کی حکومت قائم رہی ، اس لئے ایک طویل اقتدار کی وجہ سے یہاں کے طبقہ امراء ، اشراف اور طبقہ اعلیٰ کے لوگوں نے ہندوستان میں مسلمان معاشرے کی راہنمائی کی۔ اور اپنے سیاسی و معاشی اور سماجی مفادات کے تحت انہوں نے مسلم شناخت کے اصول متعین کئے۔ دوسرے صوبوں کے مسلمانوں نے ذہنی طور پر ان کی راہنمائی کو قبول کرتے ہوئے ان کے منصوبوں پر عمل کیا اور مختلف تحریکوں میں ان کی حمایت کی۔
سلطنت او رمغل دور میں مسلم شناخت
ہندوستان میں مسلمان معاشرہ تین عناصر پر مشتمل تھا ۔ فاتحین مہاجرین اور مقامی مسلمان۔ ان میں فاتحین خود کو سب سے برتر اور اعلیٰ سمجھتے تھے ۔ کیونکہ انہوں نے فتوحات کے ذریعے اقتدار قائم کیا تھا اس لئے ملک کے ذرائع میں ان کاحصہ سب سے زیادہ تھا اس لئے وہ حکمران طبقے  بن گئے تھے اس کے بعد وہ لوگ تھے کہ جو ہجرت کر کے آئے تھے چونکہ ان کا تعلق ایران وسط ایشیا سے تھا ۔ اس لئے نسلی طور پر وہ فاتحین کے گروہ سے تعلق رکھتے تھے ۔ اور انتظامیہ میں ان کی مدد کرتے تھے ۔ ایک مرحلے پر فاتحین او رمہاجرین آپس میں مل کر ایک ہوگئے اور مساوی طور پر انہوں نے سماجی تعلقات قائم کرلئے مگر وہ مسلمان جو مقامی تھے اور اپنے قدیم مذاہب کو چھوڑ کر دائرہ اسلام میں آئے تھے، ان کے اور غیر مقامی حکمران طبقوں کے درمیان کبھی بھی سماجی طور پر مساوی بنیادوں پر تعلقات قائم نہیں ہوئے او رانہیں مسلمان معاشرے میں کم تر درجے پررکھا گیا۔
اس لئے سلطنت حکومت کے ابتدائی دور میں مسلمان معاشرہ نسلی بنیادوں پر بٹاہوا تھا ، اور ابتدائی مسلمان فاتحین جنہوں نے شمالی ہندوستان میں اپنی حکومت قائم کی تھی ۔ (1206ء) میں اپنی شناخت پر فخر کرتے تھے۔ یہ اس لئے بھی کہ حکومت اور معاشی مراعات دوسرے مسلمان گروہوں کو دینے پر تیار نہیں تھے ۔ یہی صورت حال ترکوں کے بعد بھی جاری رہی ۔ اور جب افغانوں نے بہلول لودھی ( 1489۔1451) کی سربراہی میں اپنی حکومت قائم کی تو انہوں نے اقتدار اور مراعات کو صرف افغانوں میں محدود کردیا اس لئے بہلول لودھی نے افغانستان سے افغان قبائل کو اپنی مدد کےلئے بلایا اور پہلے سے موجود مسلمانوں پر جو نسلی طور پر ان سے علیحدہ تھے ان پر اعتماد نہیں کیا ۔
اس سارے عمل میں مقامی مسلمانوں کو اقتدار اور مراعات بالکل محروم رکھا گیا اور نہ تو انہیں حکومت میں اعلیٰ عہدے و منصب دیئےگئے اورنہ سماجی طور پر ان کے ساتھ برابری کاسلوک کیا گیا ، ضیاء الدین برنی (14 ویں صدی کے ایک مورخ) نے اپنی کتاب ‘‘تاریخ فیروز شاہی’’ میں اس کی مثالیں دیں ہیں کہ جب دہلی کے سلاطین نے مقامی مسلمانوں کو ان کی ذہانت و قابلیت کےباوجود اعلیٰ عہدوں پر فائز نہیں کیا۔ برنی نے جو کہ خود بھی نسلی برتری کا زبردست قائل تھا اپنی ایک اور کتاب ‘‘فتاویٰ جہانداری’’ میں مسلمان حکمرانوں کو یہ مشورہ دیا ہے کہ وہ نسلی طور پر کم تر مسلمانوں کو انتظامیہ میں اعلیٰ عہدے نہ دیں بلکہ کم تر ذات کے مسلمانوں کو یہ اجازت بھی نہیں ہونی چاہئے کہ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کریں ۔ کیونکہ تعلیم ان کے دماغ کو خراب کردے گی۔ اس لئے ان کے لئے صرف معمولی مذہبی تعلیم کہ جس کا تعلق نماز، روزہ اور معمولی مسئلہ و مسائل سے ہو۔ وہ ان کو دی جائے تاکہ اس کےذریعے وہ مسلمان رہ سکیں ۔
سلطنت کے دور میں نسلی برتری کانظریہ اور نسلی شناخت اس لئےپیدا ہوئی کہ ترکوں نے جو علاقے فتح کئے تھے ۔ وہ محدود تھے ۔ اور اس سے ملنے والی آمدنی بھی کم تھی اور ایک محدود گروہ کے مصارف کےلئےکافی تھی ، اس وقت تک انتظامیہ بھی زیادہ وسیع نہیں ہوئی تھی، اور اس میں کم لوگوں کو اعلیٰ عہدے مل سکتے تھے ۔ اس لئے ترک فاتحین نے مراعات کو اپنے لئےمحفوظ اور دوسرے مسلمانوں کوان سے محروم کردیا ۔
جب ہندوستان میں مغلو ں نے حملہ کیاتو انہوں نے ایک مسلمان حکمران خاندان کو شکست دے کر حکومت حاصل کیا (1526ء) مگر ان کی آمد اور ان کی فتوحات ہندو اور مسلمانوں دونوں حکمرانوں کے لئے خطرہ کا باعث ہوئیں ۔ اس لئے مسلمان افغان ، اور ہندو راجپوت مغلوں کے خلاف متحد ہوگئے اور کنواھہ کی جنگ میں ( 1527ء) دونو ں مل کر مغلوں کے خلاف لڑے ۔ جب ہندوستان میں مغلوں نے اپنی حکومت قائم کرلی تو اس کے نتیجے میں مسلمان معاشرے کے سماجی دھانچے میں زبردست تبدیلی آئی ۔ کیونکہ مغلوں کے بعد شمال مغربی سرحد کھل گئیں او رایک بڑی تعداد میں ایرانی کلچر اور فارسی زبان جو افغانوں کے دور میں روبہ زوال تھی ۔ اس کو دوبارہ نئی زندگی مل گئی ، اور اس کلچر کی بنیاد پر غیر ملکی مسلمانوں نے اپنا طاقتور گروہ تشکیل دیا کہ جنہوں نے مقامی مسلمانوں کو بالکل خارج کردیا ۔ یا انہیں اس ڈھانچے میں کم تر مقام دیا ۔ چنانچہ حکومت کےاعلیٰ مناصب پر باہر کے لوگوں کا تقر ر ہونے لگا ۔
مغل اپنے سفید رنگ کو بھی بڑی اہمیت دیتے تھے ۔ اس لئے رنگ کی بنیاد پر بھی وہ خود اور مقامی مسلمانوں کو جو کالے ہوتے تھے امتیاز کرتے تھے ۔
جب مسلمان معاشرے  میں غیر ملکی ہونا باعث فخر ہوگیا تو مقامی مسلمانوں نے بھی اپنے رشتے ایرانی و عرب خاندانوں سے جوڑنا شروع کردیئے ۔ اس سے اندازہ ہوتاہے کہ صرف مذہب کی تبدیلی سے ان کا سماجی مقام نہیں بڑھتا تھا اور معاشرے میں ان کے ساتھ غیر مساوی سلوک ہوتاتھا ۔ اس لئے وہ نسلی طور پر کوشش کرتےتھے کہ حکمران طبقوں میں شامل ہوجائیں ۔
مغل معاشرے کا سماجی ڈھانچہ اس وقت بدلا کہ جب مغل سلطنت فتوحات کےنتیجے میں پھیل گئی ۔ او راسے انتظامیہ کے لئے اور زیادہ لوگوں کی ضرورت محسوس ہوئی ۔ اکبر (1606۔1550)نے اس بات کا بخوبی اندازہ لگالیا تھاکہ سلطنت کو صرف غیر ملکی مسلمانوں کی مدد سے زیادہ عرصہ نہیں چلا یا جاسکتا ہے اس لئے ضروری ہے کہ مغل سلطنت کو ہندوستانی بنایا جائے اور مغل امراء کے طبقے کو وسیع کیا جائے ۔ اس مقصد کے تحت اس نے راجپوتوں کو مغل سلطنت میں شامل  کر کے انہیں مغل امراء کا ایک خاصہ بنالیا ۔ لیکن اسے یہ بھی اندازہ تھا کہ جب تک غیرت اور فرق کو علامتیں ختم نہیں ہونگی اس وقت تک ان میں اپنا ئیت کا احساس نہیں ہوگا ۔ اس لئے اس نے ہندوؤں پر سے مذہبی ٹیکس ختم کئے ۔ اور فرق کی جو جو علامتیں تھیں انہیں ختم کیا تاکہ یہ ملاپ مساوی سطح پر ہو۔ لیکن اس کے سماجی ڈھانچے میں نہ تو مقامی مسلمانوں او رنہ ہی نچلے ذات کے ہندوؤں کےلئے کوئی جگہ تھی۔ مغل امراء کے لئے راجپوت امراء کاملاپ قبول تھا، مگر وہ نچلی ذات کے مسلمانوں کو برابر کی سطح پر لانے کے لئے تیار نہیں تھے۔
اکبر کےبعد اس کی اس پالیسی کو اس کے جانشینیوں نے جاری رکھا ۔ اورنگ زیب نے بھی کہ جو ہندوؤں کو پسندنہیں کرتاتھا ۔ انہیں مغل انتظامیہ میں رہنے دیا ۔ اگر چہ اس نے اس بات کی ضرور کوشش کی مذہبی اصلاحات کے ذریعے مسلمانوں میں یکجہتی پیدا کرے ۔ مگر اس کی وہ تمام کوششیں کہ مذہبی بنیاوں پر مسلم شناخت قائم ہو۔ ناکام ہوگئیں ۔
سلاطین او رمغلوں کے عہد میں ایسی کوئی علامت نہیں تھی کہ جو مسلمان معاشرے کو متحد کرکے رکھے ۔ اور چونکہ معاشرے کے مختلف طبقوں اور گروہوں میں کوئی معاشی مفادات بھی مشترک نہیں تھے ۔ اس لئے ان میں اشتراک پیدا نہیں ہوا، اور معاشرہ برادریوں ، ذاتوں ،پیشوں اور طبقوں میں بٹا رہا ۔ اگر چہ اس پورے دور میں یہ ضرور ہوا کہ علماء مسلمانوں کی شناخت کو مذہبی بنیاوں پر ابھارنے کی کوشش میں مصروف رہے، اور ہندوستان کے معاشرے کو انہوں نے مومن و کافر میں تقسیم کئے رکھا ۔ اور مسلمانوں کو تنبیہ کرتےر ہے کہ وہ ہندوؤں کی رسومات کو اختیار نہ کریں۔ اور اپنے مذہب و ثقافت کو خالص رکھیں ۔ مگر اس میں بھی انہیں زیادہ کامیابی نہیں ہوئی ۔
علما کا رویہ ان مقامی مسلمانوں کی طرف کہ جنہوں نے اسلام قبول کرلیا تھا ۔ مگر بہت سی ثقافتی و سماجی رسومات و عادات کو باقی رکھا ، بڑا مخالفانہ تھا، اور وہ انہیں آدھا مسلمان اور آدھا ہندو سمجھتے تھے ۔ علما ء کی دلیل یہ تھی کہ اصل اسلام کو صرف عربی اور فارسی زبانوں کے ذریعے سمجھا جاسکتاہے اس لئے مقامی مسلمانوں کو پورا مسلمان ہونے کےلئے ضروری ہے کے وہ اپنا مقامی کلچر مکمل طور پر ترک کریں، عربی و فارسی کلچر اختیار کریں ۔ ان کے اس رویے کی وجہ سے غیر ملکی مسلمان خالص      اور صحیح اسلام کے پیروکار تھے جب کہ مقامی مسلمان مذہب میں ملاوٹ کا شکار تھے ۔ اور مسلمان ہونے کی کسوٹی پرپورا نہیں اترتے تھے۔
چونکہ اس دور میں (1770ءتک) ہندوستان میں مسلمان طاقت اپنے عروج پر تھی اور انہیں کسی اندرونی خطرات کابھی سامنا نہیں تھا ۔ اس لئے حکمران طبقوں نے اس بات کو ضروری نہ سمجھا کہ مذہبی ، سیاسی ، یا سماجی بنیادوں پر علیحدہ مسلم شناخت کو قائم کیا جائے ۔ صرف اکبر کے زمانے میں کہ جب اس نے راجپوتوں کو حکومت میں شامل کیا تو اس پر کچھ علماء نےاس کی مذہبی ،سیاسی اور سماجی اصلاحات کے خلاف آواز اٹھائی تھی اور اس بات پر زور دیا تھا کہ ہندو اور مسلمان دوعلیحدہ علیحدہ معاشرے ہیں ۔ مگر چونکہ حکمران طبقوں کے مفادات اکبر اور اس کی پالیسی سے وابستہ تھے اس لئےانہوں نے ان کا ساتھ نہیں دیا، اور نہ مسلمان عوام میں کوئی بغاوت ہوئی ۔
اگرچہ اورنگ زیب نے اپنے طور سے یہ کوشش ضرور کی کہ مسلمانوں کےمختلف مذہبی فرقوں کو ایک فقہ کے تحت متحد کردیا جائے ۔ اور اس مقصد کےلئے اس نے علماء کے ایک بورڈ کے ذریعے فتاویٰ عالمگیری کی تدوین کرائی مگر اس کے بعد جو سیاسی انتشار کی لہر شروع ہوئی تھی، اور جوٹوٹ پھوٹ کا سلسلہ تھا اس میں یہ بھی کوشش ڈوب کر رہ گئی ۔
آخری عہد مغلیہ
آخری عہد مغلیہ میں جب کہ طاقت رو بزدال تھی، تو اس کےساتھ ہی مسلمان امراءکے اقتدار میں بھی دراڑیں پڑنا شروع ہوگئیں ۔ ایران وسط ایشیا سے جو اب تک مہاجرین مغل دربار میں آتے تھے ان کے آنے کاسلسلہ بھی بند ہوگیا کیونکہ اب دربار اس حالت میں نہیں تھا کہ ان کی سرپرستی کرسکے ۔ ان کی آمد کےبند ہونے کانتیجہ یہ ہوا کہ اب تک ایرانی ثقافت اور فارسی زبان کو جو نئی زندگی ملتی رہتی تھی، اس کا خاتمہ ہوا فارسی زبان کا اثر کم ہوا۔ اوراس کی جگہ مسلمان امراء نے اردو زبان کو دی۔ اس کے ساتھ ہی اب تک غیر ملکی مسلمانوں کا جو اقتدار قائم تھا وہ ٹوٹا اور مقامی مسلمانوں نےبھی اپنا سماجی رتبہ بڑھایا اور ان کے مقابلے پر آئے اور اس فرق پرجو اب تک شدت سے قائم تھا کمی آئی ۔ اسی دوران میں ہندوستان کےسیاسی حالات میں زبردست تبدیلی آئی، ایسٹ انڈیا کمپنی کے بڑھتے ہوئے اقتدار نے مسلمان امراء کو کمزور کرنا شروع کردیا اور پلاسی (1507ء) بکسر (1803ء میں) انگریزی کا دہلی پر قبضہ ہوا ،تو مغل بادشاہ کی حیثیت ایک کھلونے کی ہوکر رہ گئی ۔ ان حالات میں شاہ غلام دوم (1806) کےبعد ہندوستان میں یہ رسم چلی کہ مسجدوں میں عثمانی خلیفہ کا نام پڑھا جانے لگا ، اگرچہ خلیفہ کا نام اس سے پہلے بھی خطبے میں پڑھا جاتا تھا مگر اس وقت اس کی حیثیت دوسری تھی، اکثر سلاطین اپنی حکومت کو جائز بنانے کےلئے خلیفہ کا نام خطبے میں پڑھوا تے تھے ۔مگر مغلوں کےزمانے میں یہ دستور ختم ہوگیاتھا، اب دوبارہ اس کے شروع ہونے سے مسلمان معاشرے میں اس ذہنیت کی عکاسی ہوتی ہے کہ وہ مغل بادشاہ کی کمزوریوں کے بعداپنے تحفط کے لئے اور دین کے دفاع کےلئے عثمانی خلیفہ کی طرف دیکھ رہے تھے ۔
ایک دوسری تبدیلی جو اس زمانے میں آئی وہ یہ کہ سیاسی طاقت کی غیر موجودگی کی میں علماء کا اثر رسوخ اور طاقت بڑھی ، او رانہوں نے ہندوستان میں مسلمانوں کے زوال کی وجہ ان کی مذہب سے دوری کو قرار دیا ۔ اور مسلمان معاشرے کو جو خطرات درپیش تھے ان کے پیش نظر انہوں نے اس بات کی کوشش کی کہ ملکی حالت سنبھا لا جائے ، ان کی اصلاح کی جائے اور ان میں اتحاد پیدا کیا جائے تاکہ وہان خطرات کامقابلہ کرسکیں ۔
اس سلسلے میں سید احمد شہید (1931ء)کی جہاد دتحریک اور حاجی شریعت اللہ کی فرائضی تحریک قابل ذکر ہیں ،انہوں نےاسلام کےاحیاء کی غرض سےاس بات کی کوشش کی کہ مسلمان معاشرے میں جو ہندو رسومات آگئی ہیں اور جو توہمات جڑ پکڑ گئے ہیں انہیں نکال کر خالص اور اصلی اسلام کو لایا جائے ان کامقصد یہ تھا کہ اسلامی معاشرہ قائم کرنے کےلئے اسلامی ریاست کا قیام انتہائی ضروری ہے۔ چنانچہ ان دو تحریکوں کی وجہ سے ہندوستان کے مسلمانوں کی اسلامی بنیاد پر شناخت ابھری ۔
اس کے علاوہ دوباتوں نے او رمسلمانوں میں مذہبی بنیاد پر علیحدہ شناخت کو ابھارنے میں مدد دی: ان میں ایک تو عیسائی مشنریوں کی سرگرمیاں تھیں، اور دوسری ہندوؤں میں احیا کی تحریکیں تھیں ۔ ان دونوں سرگرمیوں نے مسلمان معاشرے کو خطرے میں ڈال دیا ایک تو یہ ڈر کہ انہیں عیسائی بنا لیا جائے گا اور دوسرا یہ ڈر کہ اب ہندو اگر بیدار ہوگئے تو وہ ان پر حکومت کرنےلگیں گے ۔ اس لئے ان دو خطروں نے انہیں اتحاد اور اشتراک پر مجبور کیا۔ اور اس صورت حال میں علما ء کا اقتدار اور زیادہ بڑھ گیا او رانہوں نے مسلمان معاشرے کی راہنمائی کی تمام ذمہ داریوں کو سنبھال لیا ۔ اس لئے اس عہد میں مسلمان سیاسی و سماجی و معاشی مسائل کےحل کےلئے علماء سے رجوع کرتاتھا او ران سے فتویٰ لیتا تھا ، مثلاً یہ کہ انہیں انگریزی پڑھنی چاہئے یانہیں ، ایسٹ انڈیا کمپنی کی ملازمت کی جائے یا نہیں اور یہ کہ ہندوستان سے دارالحرب ہے یا دارالاسلام ۔ یہ بیرونی و اندرونی خطرات تھے کہ جنہوں نے مسلمان معاشرے کے تمام طبقوں کو بیدار کردیا ۔ اور ان خطرات کا مقابلہ کرنے کے لئے ان میں مذہبی بنیادوں پر اپنی علیحدہ شناخت کو قائم کیا ۔ اس لئے اس زمانے میں مدرسہ ، مسجد اور خانقاہ مسلمانوں کی شناخت کی علامتیں بن گئیں ۔
لیکن مذہب کے احیاء اور سیاسی طاقت کے قیام کی تمام امیدیں اس وقت ختم ہوگئیں جب سید احمد شہید کو بالا کوٹ کے مقام پر شکست ہوئی اور جہاد تحریک کے پیروکار برطانوی حکومت کےخلاف ہندوستان کے مسلمانوں کو بغاوت پر آمادہ کرنے میں ناکام ہوگئے ۔ فرائضی تحریک کو اس طرح سےکچلا گیا کہ بنگال کے مسلمانوں میں جد وجہد کے تمام جذبات ختم ہوگئے اور 1857ء کے ہنگامے میں مسلمانوں پر ایسی افتاد پڑی کہ ان میں مزاحمت کے تمام ولولے ختم ہوگئے ۔
برطانوی دور
1857ء کی بغاوت کے بعد تمام ہندوستان پر اداسی کی لہر چھا گئی۔ اس واقعہ نے مسلمانوں کو سب سے زیادہ متاثر کیا ۔ انہیں بری طرح کچلا گیا اور ستایا گیا ۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے خود کو انتہائی مجبوری ، لاچاری اور ستم زدگی کی حالت میں پایا ۔ ابھی وہ اس سے پوری طرح سنبھلنے نہیں پائے تھے کہ برطانوی اسکالرز کی طرف سےایک نیا چیلنج آیا انہوں نے  اسلام پر تنقید کرتے ہوئے اس خیال کااظہار کیا کہ وہ موجودہ زمانے کےمطابق نہیں اور یہی مسلمانوں کی پسماندگی کی وجہ ہے ۔
اب تک مسلمان اس قسم کی تنقید کے عادی نہیں تھے کیونکہ جب تک ہندوستان میں ان کی حکومت رہی اسلام پر اس قسم کے اعتراضات کسی نے نہیں کئے تھے ، لیکن جب اس کی شدت اور دلائل کے ساتھ اعتراضات کئے گئے تو اس نے دہشت زدہ کردیا، اور مسلمان تعلیم یافتہ طبقے نے دوبارہ اس تنقید کی روشنی  میں اسلام کامطالعہ کیا اورتاریخ بھی پڑھی ۔ تاریخ کے اس مطالعے نے سنہرے ماضی کو دریافت کیا اور انہوں نے مغرب کو جواب دیتے ہوئے جونقطہ نظر اختیار کیا وہ یہ تھا کہ یورپ کی ترقی اس وجہ سے ممکن ہوئی کہ انہوں نے مسلمان سائنس دانوں اور اسکالرز سے سیکھا ۔ مسلمانوں نےاپنے پورے دور حکومت میں عیسائیوں اور یہودیوں کے ساتھ اچھا سلوک کیا اور مذہبی طور پر انہیں کبھی بھی ہراساں نہیں کیا۔ مسلمانوں نے ادب ، سائنس ، فنون اور فن تعمیر میں جو اختراعات کیں ان کی وجہ سے انسانی تہذیب و تمدن نے ترقی کی۔ تاریخ کے اس نقطہ نظر کو مقبول بنانے کی غرض سے تاریخی ادب تخلیق ہوا، جس میں سستے ناول کتابوں سے لے کر تحقیقی مقالےتک سب ہی شامل تھے ۔ اس سنہرے ماضی کی دریافت نےمسلمان معاشرے کو پناہ دی ۔ عباسیوں کی شان وشوکت اور اسپین کےمسلمانوں کے کارناموں نے ان کی شکست کے زخموں کو بڑی حد تک مندمل کیا، اور ان میں اعتماد اور فخر کو پیدا کیا ۔ لیکن ستم ظریفی کی بات یہ تھی کہ ہندوستان کے عہد سلاطین اور مغلیہ دور کو کوئی اہمیت نہیں دی، ان کےلئے وہ ماضی جو ان سے دور تھا وہ زیادہ جاذب او ردلکش تھا بمقابلہ اس ماضی کےجو انہیں ورثے میں ملا تھا، اور جس کےوہ شکار تھے ۔ یہ بعد میں ہندوستانی قومی تحریک کے نیتجے میں ہندو مورخوں کی وجہ سےمنظر عام پر آیا ۔
اسلامی ماضی کی محبت اور فخر کی وجہ سے ہندوستان کے مسلمان خود کو اسلامی دنیا کا ایک حصہ سمجھنے لگے، اور عظیم مسلم شناخت نے ان کی ہندوستان کو مدھم کردیا اسلام دنیا سے ان کے تعلق اور جذبات کااظہار عثمانی ترکی سےمحبت اور لگاؤ کی صورت میں ہوا ۔ اگر چہ اس وقت تک بہت سے تعلیم یافتہ مسلمانوں کو بھی ترکی کی تاریخ سے زیادہ واقفیت نہیں تھی، لیکن مغلوں کہ جگہ بہت جلد عثمانی ترکی نے لے لی۔ سید احمد خان نے مسلمانوں کے ان خدمات کی تشریح کرتے ہوئے کہاکہ : ‘‘ جب مسلمانوں کی بہت سے ریاستیں تھیں، تو ہمیں اس وقت کوئی افسوس نہیں ہوتا تھا جب کہ ان میں کوئی ایک ختم ہوجاتی تھی ، لیکن اب اگر ترکی کی فتح کرلیا گیا تو ہمیں سخت صدمہ ہوگا کیونکہ یہ ہماری آخری بڑی طاقت ہے۔’’
بلقان کی جنگوں کے دوران (14۔1911) جب کہ ترکی کا وجود خطرے میں پڑ گیا تھا ، تو اس وقت عظیم مسلم شناخت اپنے عروج پر پہنچ گئی ۔ اس کااظہار مولانا محمد علی جوہر کے ان الفاظ سے ہوتاہے کہ ‘‘مسلمانوں کا دل فیض کے شہری کے ساتھ تہران کے ایرانی کے ساتھ اور استنبول کے ترک کے ساتھ دھڑکتا ہے’’ اس زمانے میں الہلال ، زمیندار ، ہمدرد، کامریڈ اور اردوئے معلیٰ میں جذباتی مقالات و مضامین کے ذریعے مسلمانوں میں مذہبی جوش و خروش پیدا کیا گیا، اس کا اثر یہاں تک ہوا کہ بہت سے سیکولر مسلمان بھی مذہبی ہوگئے اور انہوں نے داڑھیاں رکھ کر اور مذہبی رسومات ادا کرکے اپنے مذہبی ہونے کا ثبوت دیا۔
جب ہندوستان میں خلافت تحریک چلی تو اس نے عظیم مسلم شناخت کو متوسط طبقے اور نچلے طبقے تک پھیلا دیا اور ساتھ ہی علماء اور مغربی تعلیم یافتہ دونوں متحد ہوگئے اور 1918ء کے اجلاس میں مسلم لیگ نےہندوستان کے مشہور علما ء کو دعوت دی۔ اس موقع سے علماء نے پورا پورا فائدہ اٹھایا ۔ کیونکہ 1857ء کے بعد سے ان کے اثر و رسوخ میں کمی آگئی تھی اور ان کا دائرہ صرف مذہبی و سماجی معاملات تک محدود ہوکر رہ گیا تھا ، اب جب انہیں سیاست میں آنے کا موقع ملا تو انہوں نے خلافت تحریک کی راہنمائی سنبھال لی۔ جب گاندھی جی نے عدم تعاون کی تحریک چلائی (20۔1919ء) تو خلافت اور یہ دونوں تحریکیں متحد ہوگئیں اور اس کے نیتجے میں وقتی طور پر ہندو مسلم اتحاد ابھرا ، لیکن جب عدم تعاون کی تحریک کو اچانک ختم کیا گیا اور 1924 ء میں مصطفیٰ کمال نے خلافت کے خاتمے کا اعلان کردیا ۔ اس نے ایک طرف تو ہندو مسلم اتحاد کو ختم کردیا اور دوسری طرف مسلمانوں میں سخت نا امیدی اور مایوسی کو پیدا کیا ۔
ہندوستان کےمسلمانوں نے اسلام ازم اور خلافت کی تحریک کی اس لئے حمایت کی تھی کہ برطانوی دور میں جو مسلمانوں میں متوسط طبقہ پیدا ہوا تھا اسے اپنی شناخت کی ضرورت تھی، اس لئے انہوں نے جغرافیائی شناخت کو رد کرکے اپنا اسلامی دنیا سے ناطہ جوڑا تاکہ اپنی اقلیت کی کمزوری کو اسلامی طاقت میں ظاہر کریں ، اور ایک قوت اور اعتماد کے ساتھ سیاسی مطالبات کے لئے جد و جہد کریں، لیکن خاتمے نے ایک طرف تو ان کے مسلم دنیا سے تعلقات کوکمزور کردیا اور دوسری طرف ان کی غیر جغرافیائی قوم پرستی کا خاتمہ ہوا ۔
اس کے ساتھ ہی مسلمانوں کے طبقہ اعلیٰ نے یہ محسوس کر لیا اگر انہیں اپنے مطالبات منوانے ہیں تو انہیں ہندوستان میں رہتے ہوئے اپنی علیحدہ شناخت قائم کرکے اسے تسلیم کرانا ہے ۔ پر بھاڈکشت کے الفاظ ہیں ‘‘ خلافت تحریک نے اس درمیانی مرحلے کا کام کیا کہ جس میں ایک اقلیت نے قوم کی شکل اختیار کی۔’’
دو قومی نظریہ
جب مسلمانوں کی جانب سے ایک علیحدہ قوم کا نظریہ پیش کیا گیا تو اس کے نتیجے میں ان کا تصادم ہندوؤں سے ہوا۔ اس سے پہلے وہ واقعات او روجوہات جن کی بنیاد پر دوقومی نظریے کو ابھارا گیا ان میں مغربی تعلیم کو ہندوؤں میں مقبول ہونا جس کی وجہ سے وہ حکومت کی ملازمتوں میں بھی زیادہ آئے اور سیاسی طور پر انہوں نے زیادہ مراعات حاصل کیں ۔ اس وجہ سے ان میں اور مسلمانوں میں ذہنی فرق پیدا ہو گیا ۔ ہندو اور اردو کے تنازعہ نے ان دونوں میں تلخی پیدا کی اور تقسیم بنگال نے مسلمانوں میں احساس کو پیدا کیا کہ ہندوستان کی ترقی کے حامی نہیں ۔ مسلمانوں نے جب اپنے لئے علیحدہ انتخابات اور نشستوں کی بات کی تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا ہندوؤں پر اعتماد نہیں ۔ اس طرح حکومت کی ملازمتوں میں انہیں ہندوؤں کے مقابلے میں حصہ نہیں دیا گیا ۔ ان وجوہات نے ان دونوں معاشروں میں کھچاؤ تو پیداکرہی رکھاتھا مگر جب خلافت تحریک کے بعد 1928ء میں ہندوؤں نے شدھی اور سنگھٹن کی تحریکیں چلائیں تو مسلمانوں نے ان کے جواب میں تبلیغ اور تنظیم قائم کیں ۔ تاکہ مسلمان کسانوں کو ہندو ہونے سے روکا جائے ۔ ان تحریکوں کے نتیجے میں مسلمان مبلغ دور دراز کے گاؤں میں گئے      اور وہاں سادہ مسلمان شناخت کو بیدار کیا اور ان میں اکثر نے شاید پہلی مرتبہ اپنی مسلم شناخت کو دریافت کیا، جس کے نتیجے میں ان کے ہندو کسانوں سے تعلق میں کشیدگی پیدا ہوئی ۔
اس مذہبی مسلم شناخت کو مسلمان سیاست دانوں نےاپنے مفادات کے لئے پورا پورا استعمال کیا، کیونکہ اس طرح انہوں نے اپنے مطالبات جن میں حکومت کی ملازمتیں اور سیاسی نمائندگی شامل تھی ۔ مسلمانوں کی تعداد سے فائدہ اٹھایا ۔ اس لئے دو قومی نظریہ سیاسی مفادات کی وجہ سے طاقتور ہوا اور مسلمان سیاست دانوں نے پہلی مرتبہ ہندوؤں اور مسلمانوں کےاختلافات کو اجاگر کیا ۔ یہ اختلافات نہ صرف سیاسی تھے بلکہ سماجی، ثقافتی اور تاریخی معاملات میں بھی دونوں قوموں کو بالکل علیحدہ کردیا گیا اور یہ تاثر قائم کیا گیا کہ یہ دو قومیں اس قدر مختلف ہیں کہ یہ ایک ساتھ مل کر نہیں رہ سکتی ہیں۔
اس کے بعد مسلمان دانشوروں نے دو قومی نظریے کو نظریاتی بنیادیں فراہم کیں اور سب سے پہلے دونوں کی تاریخ کو علیحدہ کیا گیا وہ مسلمان فاتحین کہ جنہیں کبھی کا فراموش کر دیاگیا تھا۔ انہیں دوبارہ تاریخ کے صفحات سےنکال کر زندہ کیا گیا اور انہیں بطور ہیرو پیش کیا گیا ۔ ان کے کارناموں کے ذریعے مسلمان قوم میں فخر و اعتماد پیداکیا گیا ۔ احمد سرہندی اور شاہ ولی اللہ کہ ان کا تعلق سترہویں اور اٹھارہویں صدی سے تھا اور جن کی شہرت خود اپنے زمانے میں بڑی محدود تھی ۔ انہیں ہندوستان کے متوسط طبقے نے اپنی سیاسی ضروریات کے لئے استعمال کیا اور ان کی تحریروں کے ذریعے دو قومی نظریے کاجواز تلاش کیا گیا ۔ احمد سرہندی کا تعلق ان علماء سےہے کہ جنہوں نے شدت کے ساتھ علیحدگی پر زور دیا اور ہندوستان میں خاص طور سے گائے کی قربانی کو شریعت کا اہم فریضہ قرار دیا ۔
ان بنیادوں پر بڑی تعداد میں لٹریچر کی تخلیق ہوئی کہ جو تعلیم یافتہ مسلمانوں میں بہت جلد مقبول ہوگیا ۔ عبدالحلیم شرر کے ناول، حالی اور اقبال کی شاعری، مولانای محمد علی کے مضامین ۔ انہوں نے مسلمانوں میں ایک نیا جذبہ اور جوش پیدا کردیا اور ان کی مسلم شناخت کو مضبوط دکردیا، لیکن دیکھا جائے تو اس شناخت کی بنیادیں عقل سے زیادہ جذبات پر تھیں ۔
علماء نے بھی اس شناخت کو مضبوط بنانے میں پورا پورا حصہ لیا اور عام لوگوں میں مذہبی جذبات کو ابھارا ۔ اس مقصد کے لئے میلاد کی محفلیں منعقعد ہوئیں او ریہ عہد کیا گیا کہ قرآن اوررسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر عمل کرکے دوبارہ اسلام کی شان وشوکت کو لایا جائے گا۔ اس کانتیجہ یہ ہواکہ مسلمانوں نے سیاسی اور مذہبی معاملات میں عملی طور پر حصہ لینا شروع کردیا۔
1930ء کی دہائی میں جو سیاسی واقعات ہوئے اس نے دو قومی نظریے اور اس کے نیتجے میں پیدا ہونے والے عمل کو اور تیز کردیاہ۔ مسلم لیگ کا ‘ پروپیگنڈہ’’ 1937ء میں کانگریس کی کامیابی اور اس سے مسلمانوں کی مایوسی ، اور جناح کا مسلمانوں کے واحد راہنما کی حیثیت سے تسلیم کراانا ، اس نے دونوں قوموں کو علیحدہ علیحدہ کردیا اور بالآخر ہندوستان کی تقسیم ہوئی ۔
اختتامیہ
مسلمانوں کی تاریخ کے ابتدائی دور میں جب کہ مسلمانو حکمران اور امراء کی سیاسی طاقت مستحکم تھی ۔ تو اس وقت مذہبی بنیادوں پرمسلم شناخت کو نہیں ابھارا گیا اور اسے خوابیدہ رہنےد یا گیا ۔ لیکن اس وقت جب کہ ان کی سیاسی حیثیت خطرے کا شکار ہوئی تو وہ مسلم شناخت کو مذہبی بنیادوں پر ابھارتے رہے جیسے کہ بابر نے کنواہہ کی جنگ میں کیا اور مسلمانوں کو جہاد کے لئے شہادت کے لئے تیار کیا وہ جنگ ہندو راجپوتوں کے خلاف تھی’ لیکن جیسے ہی ایسے بحران ختم ہوتے وہ اسلام او رمسلم اتحاد کو فراموش کردیتے تھے اور اس کی جگہ نسلی نفاخر اور حسب ونسب کی بات کرکےاپنے لئے زیادہ سے زیادہ معاشی و سیاسی مراعات حاصل کرتے ۔
دوسرے دور میں جب کہ مسلمانوں حکمران طبقوں کا سیاسی اقتدار مغلوں کے زوال کی وجہ سے کمزور ہوا تو اس وقت ماضی کی شان و شوکت کی بحالی کاکام علماء نے سر انجام دیا ۔ سیداحمد شہید اور شریعت اللہ کی تحریکیں اگر چہ مذہبی تھی مگر اس کے پیچھے سیاسی و معاشی مقاصد پنہا ں تھے مگر ان کے راہنما خلوص کے ساتھ یہ سمجھتے تھے کہ صرف خالص اسلام کے آنے کے بعد ہی دنیاوی اور مادی کامیابیاں حاصل کی جاسکتی ہیں ۔ اس لئے ان تحریکوں کی نمایاں خصوصیات مذہبی پاکیزگی اور سیاسی مقاصد دونوں تھے ۔
تیسرے دور میں مسلمانوں کے متوسط طبقے نے خود کو پان اسلام ازم کی تحریک سے اس لئے وابستہ کیا تاکہ مسلم دنیا کی حمایت سے خود میں قوت وطاقت پیدا کی جائے اور ہندو اور برطانوی چیلنجوں کامقابلہ کیا جائے۔ اس دور میں علما ء او ریورپی تعلیم یافتہ مسلمان دونوں متحد ہوگئے اور سامراج کے خلاف پالیسی نےان کا اتحاد ہندوؤں کے ساتھ بھی کردیا، اور اس اتحاد کی خاطر انہوں نے گائے کی قربانی وغیرہ سے بھی مسلمانوں کو روکا ۔ لیکن جیسے ہی پان اسلام ازم کی تحریک کا خاتمہ ہوا اس کےساتھ ہی ہندو و مسلم اتحاد بھی ٹوٹ گیا ۔ اس کا نتیجہ  یہ ضرور ہوا کہ ہندوستان کے مسلمانوں نے اپنی مسلم شناخت ہندوستان کے اندر رہتے ہوئے قائم کی اور اس میں مذہب کا سیاسی طور پر پوراپورا استعمال ہوا ۔
اس طرح آخری دور میں مسلم شناخت کو مذہبی مقاصد کےلئے نہیں بلکہ سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا گیا ۔ اس وقت مسلمان راہنما نجی طور پر سیکولر تھے مگر عوام میں یہ مذہب کی باتیں کرتے تھے ، اس نے اس منافقت کی بنیاد ڈالی کہ جو سیاست دانوں کی ایک نسل سے دوسری نسل میں برابر منتقل ہوتی رہی ۔
ہندوستان کی تقسیم نے مسلم شناخت کو علیحدہ تسلیم کرلیا لیکن آگے کے حالات نے ثابت کیا کہ اس علیحدہ شناخت نے پاکستان ، ہندوستان او ربنگلہ دیش کے مسلمانوں کے لئے بہت سے مسائل کو پیداکیا۔

No comments:

Post a Comment