Tuesday, June 23, 2015

The Irony of History- Part-9 (المیہ تاریخ ( قسط ۔9

The Irony of History- Part-9 (المیہ تاریخ ( قسط ۔9





ڈاکٹر مبارک علی
علماء اور سائنس
ہندوستان میں انگریزی اقتدار نے یہاں کے معاشرے کی ہیئت وساخت میں بنیادی اور انقلابی تبدیلیاں کیں۔سیاسی و ثقافتی اور معاشی تبدیلیوں کےساتھ ساتھ سائنسی اور فنی ایجادات نے مذہبی اور توہمات پر کاری ضربیں لگائیں اور مذہبی رجعت پرستی کو کمزور کیا ۔اس عمل میں یورپی اور ہندوستانی معاشروں میں فرق نمایاں اورواضح رہا ، کیونکہ یورپی معاشرہ سائنسی اور فنی ایجادات کے عمل کے نیتجے میں ذہنی طور پر آکر بڑھا او رمعاشرے کی ترقی میں ہر فرد نے برابر کا حصہ لیا اور ان تمام ایجادات کوجو وقت کی ضرورت کے تحت عمل میں آئی تھیں انہیں نہ صرف ذہنی طور پر قبول کیا بلکہ یہ ان کی زندگی میں رچ بس گئیں اس کے مقابلے میں ہندوستان میں یہ ایجادات یورپ سے آئیں اور ایک ایسے معاشرے میں رائج ہوئیں جو ذہنی طور پر ان کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھا ۔ اس لئے اس نے ہر نئی چیز کو شک شبہ کی نظروں سے دیکھا ۔ اور ان کو قبول کرتے ہوئے خوف و جھجک کامظاہرہ کیا۔
مسلمان معاشرے میں خصوصیت سے علماء کا طبقہ نئی سائنسی اور فنی ایجادات کا زبردست مخالف تھا ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کا نظام تعلیم پرانی اور فرسودہ روایات پر قائم تھا اور ہر زمانے کی تبدیلیوں اور وقت کے تقاضوں کے ساتھ ساتھ اس میں کسی قسم پر قائم رد و بدل نہیں کیا گیا تھا ۔ بنیادی طور پر مسلمان معاشرے میں جو نظام تعلیم رائج تھا اس کا مقصدیہ تھا کہ صرف وہ مضامین پڑھائے جائیں جن سے عقائد اور ایمان سلامت رہے اور ایسےتمام مضامین ، افکار و نظریات جو ذہن و شبہ پیدا کریں اور جن سے عقائد کے بارے میں سوالات پیدا ہوں انہیں قطعی طور پر نہ پڑھایا جائے ۔ چنانچہ ابتداء ہی سے ہندوستان کے علماء فلسفے کے مخالف تھے، کیونکہ فلسفہ ذہن میں شک و شبہ پیدا کر کے ہر چیز کو عقل کی کسوٹی پر پرکھتا ہے ۔ اس لئے دیوبند کے سربراہ مولانا رشید احمد گنگوہی نے فلسفے کو دیوبند کے نصاب میں نہیں رکھا ۔ اور سختی کے ساتھ اس بات کو کہا کہ جو میرا شاگرد فلسفے سے شغل رکھے گا وہ میرا مرید او رمیرا شاگرد نہیں (1) دیوبند کانصاب درس نظامی جو اٹھارہویں صدی میں تیار کیا گیا تھا ۔ اور اسی کو بغیر تبدیلی کے پڑھایا جاتا تھا ۔ اس نصاب کے اہم مضامین تھے ۔ عربی و نحو، منطق، حکمت، ریاضی، بلاغت، فقہ، اصول فقہ ، کلام، تفسیر اور حدیث ۔
اس نصاب میں نہ تو اسلامی ملکوں کی تاریخ تھی، نہ ہندوستان کی تاریخ، نہ جغرافیہ نہ سائنس کے علوم، مشیر الحق نے اس کا تجزیہ  کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
‘‘ جدید سائنس پر کوئی زور نہیں دیا جاتاتھا، طالب علموں  کو باقاعدہ کوئی جدید ہندوستان یا یورپی زبانی پڑھائی جاتی تھیں ۔ انگریزی بھی نہیں جو ہندوستان کی دوسری زبان بن چکی تھی ۔ عالمی تاریخ کو پڑھانے کا کوئی انتظام نہیں تھا اور نہ ہی ہندوستان کی تاریخ پڑھائی جاتی تھی ، یا جغرافیہ اور دوسری سماجی علوم ایسی کوئی کتاب نصاب میں نہیں تھی جو غیر مسلموں کے بارے میں معلومات فراہم کرتی ہو۔’’
دیوبند فرنگی محل اور مظاہر العلوم اور ان جیسے مدرسوں نے جن طالب علموں کو پیدا کیا وہ جدید تعلیم ، جدید روایات اور وقت کی تبدیلیوں سے قطعی ناواقف تھے ۔ اور ذہنی طور پر وہ عہد و سطی کی پیدوار تھے ۔ نئی سیاسی و سماجی اور سائنسی و فنی ایجادات اور تبدیلیوں سےنہ صرف ناواقف تھے بلکہ اس عمل کو سمجھنے سے قاصر تھے ۔ اس لئے یہ نہ کوئی پیشہ اختیار کر سکتے تھے او رنہ کوئی ملازمت ان کی جگہ صرف مدرسے اور مسجدیں تھی، او راپنے معاشی مسائل کو حل کرنے کے لیے ان کی کوشش تھی کہ مذہبی ادارے قائم  ہوتے رہیں چندہ جمع ہوتے رہے  او رلوگ مذہبی عقائد و توہمات سے چمٹے رہیں ۔ اس لئے انہوں نے  سائنس ، آرٹ اور فن میں ہونے والی ہر نئی چیز کی مخالفت کی ۔ اس کا اندازہ ان فتوؤں سے کیا جاسکتا ہے۔ جو فتاویٰ دارالعلوم اور ‘‘فتاوی رشیدیہ ’’ میں سائنسی  ایجادات اور سماجی   تبدیلیوں کے خلاف درج ہیں ۔ مثلاً انگریزی ہیٹ اور ٹوپی کا استعمال مسلمانوں کے لئے جائز نہیں کیونکہ نصاریٰ کی نقل اتارتا ہے(3)
تصویر کشی میں کہا گیا ہے کہ : تصویر کشی شریعت اسلامیہ میں مطلقاً حرام ہے ۔ خواہ قلم سے ہو یا فوٹو گرافی۔ جو تصویر محض زیب و زینت کے لئے رکھی جائے اگر وہ جاندار کی ہے تو ناجائز ہے لیکن اگر اسے کسی ذلت کی جگہ پر ڈال دیا جائے جیسے جوتوں کے فرش پر یا ایسی ہی جگہ تو پھر جائز ہے طبی معلومات یا نقشہ جنگ کے لئے بھی مکمل تصویر رکھنا جائز نہیں ۔طبی ضرورت کے لئے ہر عضو کی علیحدہ علیحدہ تصویر رکھی جائے ۔ بجز سر کے اس کی تنہا  رکھنا بھی جائز نہیں مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا گیا ہےکہ کسی جاندار کی تصویر بنانا خواہ مجسمے تصویر کی صورت میں یا نقش و رنگ کی صورت میں ، خواہ قلم سے بنائی جائے یا پریس میں چھپوائی جائے یا کیمرے کے ذریعے تصویر لی جائے ، یہ سب گناہ کبیرہ ہے ۔ چار قسم کی تصویروں کو جائز قرار دیا گیا ہے ۔ سرکٹی ہوئی تصویر ، وہ تصویر جو پامال اور ذلیل ہو، اتنی چھوٹی ہوں کہ اگر انہیں زمین پر رکھ کر کھڑے ہوکر دیکھیں تو پوری نظر نہ آئیں اور بچوں کی گڑیاں جو مکمل نہ ہوں ۔(4)
ایک سوال کے جواب میں کہ جغرافے کا ایسا نقشہ بنایا جاسکتا ہے کہ جس میں حیوانات جمادات ، نباتات اور دوسری معلومات کے ساتھ ساتھ ان کی تصویریں ہوں ۔ تو اس کے جواب میں فتویٰ دیا گیا کہ تصویر کشی مطلقاً حرام ہے اور اگر حیوانات کی تصویر بنائی جائے تو بغیر سر اور عضو کے ہو (5)
کھیلو ں کے بارے میں فتویٰ دیا گیا کہ کھیل خواہ گیند کا ہویا دوسرا، اگر لہو لعب کی غرض سے ہو تو مکروہ ، اگر تفریح اور تھکاوٹ دور کرنے کے لئے ہو تو جائز ہے ، مگر فٹ بال کھیلنا مکروہ ہے کیونکہ یہ نیکر پہن کر کھیلا جاتا ہے ۔ وہ ان تمام ایسے کھیلوں کو جن میں انگریزی وضح کو اختیار کیا جاتا ہو۔ یعنی لباس پہننا جس سے گھٹنے  کھلے ہوں، اور جن کے کھیلنے سے ضروریات اسلام یعنی نماز وغیرہ میں خلل پڑتا ہو وہ جائز نہیں (6)
تھیٹر اور سنیما کے بارے میں جب یہ سوال کیا گیا کہ : ‘‘ مسلمانوں کا تھیٹر باسکوپ جانا تماشا دیکھنا اس میں کام کرنا یعنی گانا بجانا ، ناچنا صورت، شکل، لباس کا تبدیل کرنا عورتوں کا لباس پہننا اس میں شریک ہونا، ملازمت کرنا اور اس کی ترغیب دینا اس کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟ تو اس کے جواب میں فتویٰ دیا گیا ہے کہ سخت گناہ اور بہت سے کبیرہ گناہوں کا مجموعہ ہے اور جو شخص لوگوں کو اس کی طرف ترغیب دلاتا ہے وہ بہت بڑا فاسق ہے۔
کسی نے اس مسئلہ کی طرف توجہ دلائی ہے کہ شاہان اسلام کی تصاویر کو سنیما میں دکھانا جائز ہے یا نہیں تو اس کے جواب میں کہا گیا کہ یہ ان کی توہین ہے کہ ان کو آلہ لہو و لعب بنایا جائے اور مسلمان بادشاہوں کی توہین کرنا ناجائز ہے (7) سنیما کے بارے میں قطعی فیصلہ دیا گیا کہ سنیما    مطلقاً بہت سے معاصی و منکرات کا شرعی مجموعہ ہے ۔(9)
ریڈیو کی ایجاد کے بعد اس کے سلسلے میں جو فتوے دیئے گئے ہیں ۔ ان میں کہا گیا کہ جس ریڈیو میں گانا بجانا ہو اس میں کسی بھی طرح نہ قرآن پڑھنا جائز ہے او رنہ سننا (10) گرامو فون سے تلاوت کا سننا ناجائز ہے۔(11)
مختلف ملبوسات اور فیشن کی بھی مخالفت کی گئی ، مثلاً یہ کہ عورتوں کے لئے کھڑا جوتا پہننا ناجائز ہے۔ (12)
فتاویٰ رشیدہ میں بھی نئی سماجی و معاشی تبدیلیوں کے خلاف ایک رد عمل ملتا ہے ۔ مثلاً منی آرڈر سے پیسے بھیجنے کو شریعت کے خلاف کہا گیا ہے ۔ اور بینک میں پیسہ جمع کرانا چاہے سود پر ہو ، یا بغیر سود کے یہ بھی شریعت کے خلاف ہے۔(13)
ان فتووں کے علاوہ اس وقت کے علماء نے ہر اس چیز کی مخالفت کی جس سے سیاسی سماجی اور معاشی زندگی میں کوئی تبدیلی آئی اور جس نے پرانی روایات کو توڑا، اور قدیم نظام زندگی کو بدلا، مثلاً اسپیکر کا استعمال ، ریل کا سفر، ہسپتالوں میں مریضوں کا داخلہ ، نئی ادویات کا استعمال ، یورپی طرز کا لباس ، یورپی انداز میں کھانا اور ان کی عادات اختیار کرنا وغیرہ ۔
لیکن سائنسی اور فنی ایجادات جو انسانی زندگی میں سہولتیں لے کر آئی تھیں وہ ان فتوؤں کے باوجود لوگوں میں مقبول ہوئیں او رزمانے کی ضرورت کے تحت ان کا استعمال بڑھتا گیا اور انہیں نہ صرف معاشرے نے قبول کیا بلکہ ان علماء کے طبقے نے بھی انہیں تسلیم کرلیا جو ابتداء میں اس کے مخالف تھے ۔ ابتدائی دور میں ان سائنسی و فنی ایجادات کی مخالفت اور سماجی تبدیلیوں کی مزاحمت کی وجہ یہ تھی کہ علما ء کا طبقہ ذہنی طور پر تبدیلی کے عمل سے ناواقف تھا اور ان کی اہمیت کو سمجھنے سے قاصر تھا ۔ یہی صورت آج بھی ہے کہ وہ اپنے فرسودہ نظام تعلیم کی وجہ سے نئی تبدیلیوں اور ان کی ضروریات کو سمجھنے سے قاصر ہیں اور ان کے لئے ہر نئی چیز مذہب کے خلاف ہوتی ہے لیکن اس کے استعمال کے بعد وہ اس کو آگے چل کر قبول کرلیتے ہیں ۔ اس سے مذہبی توہمات   و عقائد پر سائنس کی فتح واضح طور پر ثابت ہوجاتی ہے ۔
حوالہ جات:
(1) محمد میاں : علماء حق ( اول) دہلی (9) ص۔85
مشیر الحق MUSLIM POLITICS IN MODERN
(2) مشیر الحق ، ص INDIA LAHORE (P-19)
(3) فتاویٰ دارالعلوم ۔ کراچی (؟) ص 9790۔991۔992
(4) ایضاً 993۔994۔995
(5) ایضاً 999۔1000
(6) ایضاً 1002
(7) ایضاً 1003
(8) ایضاً 1007
(9) ایضاً 1007
(10) ایضاً 1008
(11) ایضاً 1012
(12) ایضاً 745
(13)رشید احمد گنگوہی :فتاویٰ راشیدیہ ۔کراچی (؟) ص ۔ 430۔431

No comments:

Post a Comment