Saturday, June 20, 2015

The Irony of History- Part-6 (المیہ تاریخ ( قسط ۔6




ڈاکٹر مبارک علی
صوفیاء کی روحانی سلطنت
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد اسلامی معاشرہ خانہ جنگیوں مذہبی و سیاسی اختلافات اور نظریاتی بنیادوں پر مختلف جماعتوں اور گروہوں میں تقسیم ہوگیا ۔حضرت علی رضی اللہ عنہ و حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے سیاسی اختلافات نے اس میں مزید اضافہ کیا ان خانہ جنگیوں اور سیاسی اختلافات نے اسلامی معاشرے میں دو رجحانات کو پیدا کیا ایک رجحان تو یہ تھا کہ اس سیاسی کشمکش اور اقتدار کی جنگ میں کسی ایک جماعت کا ساتھ دیا جائے تاکہ معاشرے سے خانہ جنگی ختم ہو اور امن و امان بحال ہو دوسرا رجحان یہ تھا کہ اس تصادم میں کسی کا ساتھ دینا اور اس کی حمایت کرنا مزید خونریزی کا سبب ہوگا۔ اس لیے ونیاوی معاملات سے خود کو علیحدہ رکھا جائے اور سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر کے اپنا وقت یاد الہٰی میں صرف کیا جائے۔
اس نقطے سے اسلامی معاشرے میں مذہب و سیاست کی علیحدی کا تصور پیدا ہو اس کی مثال ہمیں عہد امیہ اور عہد عباسیہ میں نظر آتی ہے جب کہ علماء کا ایک طبقہ سیاست میں حصہ لینے کا شدید مخالف تھا اور اسی سبب سے حکومت کی ملازمت اختیار یا عہدے کی کوشش کرنا گناہ سمجھتے تھے اسی وجہ سے انہوں نے حکومت سے علیحدہ اپنا ایک ادارہ بنایا جس کا کام مذہبی معاملات و امور کامطالعہ کرنا اور اس میں عوام کی راہنمائی کرنا تھا ۔
(1) اسلامی معاشرے میں جب صوفیاء کا طبقہ پیداہوا تو اس نے مزید اس رجحان میں اضافہ کیا اور سیاست سے قطعی طور پر کنارہ کشی اختیار کی بادشاہوں کے دربار میں جانا ان سے میل جول رکھنا، ان کی ملازمت اختیار کرنا یا حکومت کے خلاف کسی بغاوت و سازش میں حصہ لینا ان معاملات سے یہ طبقہ ہمیشہ دور رہا چونکہ صوفیاء نے اپنے کوئی سیاسی عزائم نہیں رکھے اس لیے ان کا حکمران طبقے سے کوئی سیاسی تصادم بھی نہیں ہوا۔ کیونکہ سلطان وقت اپنے خلاف ذرا سی مخالفت برداشت نہیں کرسکتا تھا اس لیے صوفیاء نے خود کو ہمیشہ تنازعات اور جھمیلوں سے دور رکھا ہے حکومت تبدیل کرنے میں کبھی کسی کےشریک نہیں رہے بہت کم ایسے واقعات ہیں کہ انہوں نے بادشاہ وقت کی کھلم کھلا مخالفت کی ہو۔ ورنہ انہوں نے ہمیشہ بادشاہ وقت کا وفادار رہنے کی پال پر عمل کیا اور اپنے مریدوں کو بھی حکومت سے وفادار رہنے کی تلقین کی اس ضمن میں نظام الدین اولیاء کی مثال پیش کی جاسکتی ہے جنہوں نے ہر سلطان کے زمانے میں مفاہمت کی پالیسی کو اختیار کیا ۔ قطب الدین خلجی کے قتل کے بعد جب نومسلم خسرو خاں نے تخت و تاج پر قبضہ کیا تو اس وقت بھی وہ خاموش رہے بلکہ اس نے ان کی خدمت میں جو تحائف بھیجے انہوں نے انہیں بھی قبول کرلیا ۔ یہی حال ان کے مرید امیر خسرو کا تھا ۔ جنہوں نے ہر سلطان کے دربار میں وفاداری کے ساتھ خدمات سر انجام دیں اس رجحان کا اندازہ مخدوم جہانیاں جہاں گشت کے ان الفاظ سے ہوتا ہے جو انہوں نے سراج الہدایہ میں لکھے ہیں :
روئے زمین کے بادشاہ خدائے بزرگ و بر تر کی بر گزیدہ مخلوق ہیں ان کے حکم کی خلاف ورزی یا اہانت شروع میں کسی طرح جائز نہیں ۔ پس کسی معاملے میں ظاہری یا پوشیدہ ان کی مخالفت جائز نہیں ..... نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جس نے سلطان کی اطاعت کی اور جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے اللہ کی اطاعت کی وہ بخشا گیا ۔ (1)
مخدوم صاحب نے یہاں تک سلطان کی اطاعت پر زور دیا کہ اگر کوئی شخص خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرے مگر حاکم کی نہیں تو اس کی اطاعت قبول نہیں ہوگی ۔ (2) ایک جگہ اور لکھتے ہیں کہ ‘‘مکہ اور خراسان کے مشائخ نے اس خاکسار کو وصیت کی ہے کہ ہر حال میں حکمران کا مخلص اور نیک خواہ رہنا چاہئے ’’۔(3)
سلطان وقت سے وفاداری کا نتیجہ یہ نکلا کہ صوفیا ء سے حکومت کا براہ راست کبھی تصادم نہیں ہوا اور اگر سلطان وقت کو کسی کی سرگرمیوں پر ذرا بھی شبہ ہوا تو ا س کو سختی سے کچل دیا گیا جلال الدین خلجی جیسے رحم دل سلطان نے جو چوروں اور ڈاکوؤں کو تو معاف کردیتا تھا مگر سید مولہ کو اس شبہ میں قتل کروادیا کہ وہ اس کے خلاف سازش میں ملوث ہیں کہا جاتا ہے کہ علاؤالدین خلجی نے نظام الدین اولیاء کے سیاسی عزائم کو پرکھنے کے لیے سلطنت کے بارے میں مشورے کی غرض سے ایک پرچہ بھیجا اس کا جواب انہوں نے یہ دیا کہ :
‘‘ فقیروں کو بادشاہوں سے کیا مطلب میں ایک فقیر ہوں شہر سے الگ ایک کونے میں رہتا ہوں ۔’’ (4)
ان الفاظ سے علاؤ الدین کو اطمینان ہوگیا کہ ان کے کوئی سیاسی عزائم نہیں اور اسی لیے اس نے ان کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھایا ۔
سیاست سے علیحدگی نے صوفیاء اور حکمرانوں میں تصادم نہیں ہونے دیا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ حکمرانوں نے ان کی خوشنودی اور برکت کی خاطر ہر طرح سے ان کی خدمت کی : ان کے لیے خانقاہیں تعمیرا کرائیں سرکاری خزانے سے انہیں تحفے تحائف اور وظائف دیئے اور مدد معاش کے طور پر انہیں جاگیر یں دیں جس کی وجہ سے صوفیاء کے طبقے کو معاشی و مالی خوش حالی مل گئی ان کی خانقاہوں نے ان کے اثر و رسوخ کو بڑھانے میں مدد دی کیونکہ یہ خانقاہیں بہت جلد صوفیاء کے مختلف سلسلوں کا مرکز بن گئیں خانقاہ میں رہائش گاہ یہا ں کے لنگر خانے سے دو وقت کا کھانا مرشد یا شیخ کی جانب سے نذر نیاز اور تحفے تحائف کی تقسیم نے ان کے گرد بہت سے مریدوں کو جمع کردیا یہ مرید خانقاہ کے ادارے کے تحفظ کی خاطر شیخ کی شخصیت کو عوام میں بڑھا چڑھا کر پیش کرتے تھے اور ان کی کرامات اور ان کے زہد و تقویٰ کی کہانیاں ان کے گرد تقدس و پاکیزگی کا ہالہ کردیتی تھیں جن کی وجہ سے معاشرے میں ان کی عظمت بڑھ جاتی تھی ۔
معتقدوں اور مریدوں کے ذریعے صوفیاء کی عوام میں جو مقبولیت ہوئی تو ان کے ذریعے اقتدار کی خواہش کا اظہار ایک دوسرے ذریعے سےہو:انہوں نے اپنی روحانی سلطنت کی بنیاد ڈالی ۔ جس نے ایک طرف تو انہیں موثر اقتدار دیا اور دوسری طرف یہ سیاسی حکمرانوں سے متصادم بھی نہیں ہوئے ۔ سیاسی اقتدار کا حصول ہمیشہ مشکل ہوتا ہے اس کےلیے جنگ خونریزی ، سازش اور دولت کی ضرورت ہوتی ہے، کامیابی و ناکامی ، فتح و شکست کے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے ۔ لیکن ایک ایسی سلطنت جو بغیر خونریزی  کے خاموشی سے قائم ہوجائے، جہاں ناکامی اور شکست کا کوئی خطرہ نہ ہو اور جو اپنی باطنی و روحانی قوتوں کی وجہ سے سیاسی حکومتوں سے زیادہ طاقتور اور بالاتر ہو، ایک ایسی سلطنت صوفیاء کےلیے مثالی تھی پھر مزید یہ کہ روحانی سلطنت کوئی وحدت اور اکائی نہیں تھی بلکہ روحانی دنیا اتنی وسیع و عریض تھی کہ اس میں مختلف صوفیاء کے سلسلے اپنی اپنی سلطنتیں رکھتے تھے ۔ شیخ محی الدین العربی نے اس تصور کو مزید تقویت دی کہ دنیا کے ظاہری نظام کے ساتھ ساتھ ایک باطنی و روحانی نظام بھی ہے، جو قطبوں ، ابدالوں اور اوتادوں پر قائم ہے ۔ احمد سرہندی کے مریدوں نے انہیں قیوم اول قرار دیا اور قومیت کے نظریہ کواس طرح پیش کیا :
قیوم اس شخص کو کہتے ہیں جس کے ماتحت تمام اسمائے صفات شیونات اعتبار اور اصول ہوں اور تمام گزشتہ و آئندہ مخلوقات کے عالم موجودات انسان، و حوس پرند، نباتات ، ہر ذی روح، پتھر ، درخت ، بحر و بر کی ہر شے، عرش ، کرسی، لوح، قلم، ستارہ، ثوابت ، سورج ، چاند، آسمان، بروج سب اس کے سائے میں ہوں ۔ افلاک و بروج کی حرکت و سکون، سمندروں کی لہروں کی حرکت، درختوں کے پتوں کاہلنا، بارش کے قطروں کا گرنا، پھلوں کاپکنا، پرندوں کاچونچ پھیلانا ، دن رات کا پیدا ہونا اور گردش کنندہ آسمان کی رفتا سب اسی کے حکم سے ہے۔ بارش کا ایک قطرہ ایسا نہیں جو اس کی اطلاع کےبغیر گرتا ہو، زمین پر حرکت و سکون اس کی مرضی کے بغیر نہیں جو آرام وخوشی او ربے چینی اور رنج اہل زمین کو ہوتا ہے ا س کے حکم کے بغیر نہیں ہوتاہے، کوئی گھڑی کوئی دن، کوئی ہفتہ، کوئی مہینہ ، کوئی سال ایسانہیں جو اس کے حکم کے بغیر اپنے آپ میں نیکی وبدی کا تصرف کرسکے، غلے کی پیداوار ، نباتات کااگنا غرض جو کچھ بھی خیال میں آسکتا ہے وہ اس کی مرضی اور حکم کےبغیر ظہور میں نہیں آتا ۔(5)
شاہ ولی اللہ نے خلافت کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے ظاہری و باطنی ۔ ظاہری خلافت کے حدود میں جہاد کی تیاری، سرحدوں کی حفاظت، صدقات و محصول کی وصولیابی ، مستحقین میں اس کی تقسیم ،مقدمات کے فیصلے راستوں ، سراؤں اور مساجد کی تعمیر آتے ہیں ، جب کہ باطنی خلافت کی حدود میں شرائع و قوانین اسلام کی تعلیم وعظ و پندہ نصیحت اور لوگوں کو زہد و تقویٰ کی طرف بلانا ہے۔(6)
بہر حال روحانی سلطنت کا تصور ، صوفیا کے مختلف سلسلوں میں مختلف تھا ۔
(2) صوفیا کی روحانی سلطنت کا سربراہ شیخ یا مرشد کہلاتا تھا اس کی حیثیت وہی تھی جو سیاسی حکومت میں بادشاہ یا سلطان   کی ہوتی تھی ۔ یہاں اس بات پر زور دیا جاتاتھا کہ مرید کو اپنے پیر سے اس قدر عقیدت ہونی چاہئے کہ وہ اپنے پیر سے بڑھ کر ( اپنے زمانے میں ) کسی کو اچھا نہ سمجھے او ریہ خیال کرے کہ میرا پیر، ہی خدا رسیدہ ہوسکتا ہے ۔ اگر وہ اپنے پیر و مرشد کے علاوہ کسی اور کو خدا رسیدہ سمجھے تو اس شیطان قابض ہوجاتا ہے ۔ حضرت نظام الدین اولیاء سے کسی نے پوچھا کہ مریدوں میں سے ایک مرید جو پانچ وقت کی نماز ادا کرتا ہے اور پیر کی محبت دل میں رکھتا ہے دوسرا نماز پڑھتا ہے اور کثرت سے عبادت میں مشغول رہتا ہے ۔ لیکن پیر کی عقیدت دل میں نہیں تو ان دونوں میں سے کون اچھا ہے۔ فرمایا جو شیخ کا معتقد و محب ہے۔ (7) روحانی و سیاسی سلطنتوں کے سربراہوں میں بڑی ممثلت ملتی ہے۔ مثلاً اگر سلطان اپنے ملازمین و ہ عہدے داروں کو دنیاوی آرام و آسائش فراہم کرتا ہے تو مرید اپنےمریدوں اور پیروکاروں کو ابدی راحت کا یقین دلاتا ہے۔ سیاسی سلطنت میں سلطان سے وفاداری لازمی ہے تو اسی طرح روحانی سلطنت میں مرشد کی اطاعت ضروری ہے۔ دونوں سلطنتوں میں سربراہ سے عدول حکمی نافرمانی اور سرکشی جرائم سے ہے۔
روحانی سلطنت کے استحکام اور شیخ و مرشد کی عقیدت عزت و احترام نے ان کے تصورات میں اور تبدیلی کی اور وہ یہ کہ : یہ خود کو سلطان یا حکمران سے برتر سمجھنے لگے ۔ اور اس نظریے کی تبلیغ کی کہ دراصل سیاسی سلطنت بھی ان کے تابع ہے اور ان کی شخصیت حکمرانوں سے اعلیٰ و افضل ہے بلکہ در حقیقت روحانی سلطنت کے سربراہ ہی دنیاوی سلطنت کے کاروبار کوچلاتے ہیں اور ان کی مرضی کے بغیر کوئی دنیاوی سلطنت اس کا سربراہ کامیاب و کامران نہیں ہوسکتا ہے۔ احمد سرہندی ‘‘ رسالہ تھلیلیہ ’’ میں لکھتے ہیں :
وہ صوفیائے کرام جو خدا پرست ، صاحب کشف اور شمع نبوت سے نور حاصل کرتےہیں زمین ان کے سہارے قائم ہے اور انہیں کے فیوض و برکات سے اہل زمین پر نزول رحمت ہوتا ہے او رانہیں کی وجہ سے لوگوں پر بارش برسائی جاتی ہے اور انہیں کی وجہ سے رزق دیا جاتا ہے ۔ (8)
سلاطین دہلی کے بارے میں اس قسم کے واقعات مشہور ہیں کہ انہیں ہندوستان کی سلطنی کسی صوفی یا پیر کی دعا سے ملی مثلاً الشمش ، بلبن ، محمد تغلق اور حسن گنگو بہمنی کے بارے میں خواجہ معین الدین چشتی ، فرید الدین شکر گنج اور نظام الدین اولیاء کی پیش گوئیاں ہیں ۔ (9) سندھ کے حکمران جانی بیگ کی وفات پر تخت نشینی کے بارےمیں لوگوں کے قیاسات زیر بحث تھے تو مخدوم نوح ہالائی نے اپنی مجلس میں مریدوں سے پوچھا کہ ‘‘اب کس کو تخت نشین کرناچاہتے ہیں؟ ’’ تو ان کے مرید شیخ احمد یحییٰ نے ادب سے کہا کہ دستار سلطنت مرزا غازی کو ملنی چاہئے (10) چنانچہ ان کے معتقدین کے نزدیک یہ ان کا فیصلہ تھا جس کے تحت غازی بیگ حکمران ہوا ۔ ان واقعات سے جن کی تاریخی حیثیت مشکو ک ہے ۔ صوفیا کے پیروکار وں نے اس تصور کو آگے بڑھایا کہ دنیاوی سلطنت کے حکمران ان کی مرضی کے بغیر تخت و تاج حاصل نہیں کرسکتے او ران کی تخت نشینی میں دراصل ان ہی کا ہاتھ ہوتا تھا ۔
اسی طرح سلطان کی سیاسی کامیابیاں ‘ فتوحات’ ملک کی فارغ البالی اور امن و امان بھی ان ہی کے دم سے تھی ۔ محمود غزنوی کی فتوحات خواجہ ابو محمد چشتی کی دعاؤں کا نتیجہ تھیں، شہاب الدین غوری کی کامیابی معین الدین چشتی کی وجہ سے ہوئی علاؤالدین خلجی کی فتوحات نظام الدین اولیاء کی کرامات کا کرشمہ تھیں او رمغلوں کی کامیابی وفتح مندی غوث گوالیاری کی اعانت سے ہوئی ۔
روحانی سلطنت کی جڑیں آہستہ آہستہ اس قدر مضبوط ہوگئیں کہ خود سلاطین بھی ان کی برتری کے قائل ہوگئے اور مشکل معاملات میں ان سے اعانت کے طلبگار ہونے لگے مثلاً دہلی میں ایک مرتبہ سخت قحط پڑا تو اس موقع پر الشمش نے صوفیاء سے مخاطب ہوکر کہا : ‘‘ظالم کا فتنہ رفع کرنا بادشاہوں کا کام ہے میں اس کام میں کوتاہی نہیں کرتا حق تعالیٰ کی طرف سے باطن اور خلق کی بہتری کے لیے دعا کرنا آپ کا حق ہے۔’’(11)
اگر کبھی روحانی سلطنت اور سیاسی سلطنت کے سربراہ میں تصادم ہوا تو اس کے نتیجے میں سیاسی حکمران ہمیشہ ان کی بد دعا کا شکار ہوا ۔ یہ واقعات اس قدر عام ہوتے کہ حکمران ان کی بد دعاؤں سے خوفزدہ رہتے تھے ۔ مثلاً نظام الدین اولیاء کےستانے کے نتیجے میں قطب الدین خلجی کاقتل ہوا ۔(12) نظام الدین اولیاء ہی سے یہ بات منسوب کی جاتی ہے کہ غیاث الدین تغلق نے جب بنگال سے واپسی پر انہیں کہلا بھیجا کہ وہ اس کے آنے تک دلی چھوڑ دیں تو انہوں نے کہا ‘‘ہنوز دلی دور است’’ اور سلطان دلی سے باہر ہی محل کے گرنے سے مر گیا ان واقعات کی شہرت کا نتیجہ یہ ہوا کہ حکمران صوفیاء کی شخصیت سے مرعوب ہوگئے اور عقیدت مندی کے ساتھ ان کی خانقاہوں میں حاضری دینے لگے وہ ان کی خوشنودی اور دعاؤں کے خواہش مند رہتے تھے اور بد دعاؤں سے ڈرتے تھے ۔
(4) سیاسی سلطنت اور صوفیاء کی روحانی سلطنت کی ساخت میں فرق تھا ۔مثلاً سیاسی سلطنت کا سربراہ او رحکمران صرف ایک شخص ہی ہوسکتا تھا اگر ایک سے زیادہ امیدوار ہوتے تو فیصلہ طاقت کے ذریعے ہوتا تھا لیکن روحانی سلطنت میں بیک وقت کئی سلسلوں کے مرشد یا شیخ سربراہ کی حیثیت رکھتے تھے اور ہر سلسلے کا شیخ اپنی سلطنت کو مختلف دلایتوں میں تقسیم کر کے وہا ں اپنے خلفاء کا تقرر کرتا تھا صوفیاء کے سلسلوں کے مرشدوں اور خلفاء میں اقتدار کی کوئی جنگ نہیں ہوتی تھی بلکہ یہ ایک دوسرے کے وجود کو برداشت کرتے تھے کہا جاتا ہے کہ جب بو علی قلندر پانی پت میں آئے دتو شمس الدین ترک نے جو پہلے سے وہاں مقیم تھے ان کے پاس دودھ سے بھرا ہوا پیالا بھیجا وہ اسے دیکھ کر مسکرائے اور اس پر پھول کی چند پتیاں ڈال دیں جب شمش الدین نے یہ دیکھا کہ تو کہا : میری مراد دودھ کے پیالے سے یہ تھی کہ یہ ملک میرے شیخ نے مجھے دیا ہے اس میں آپ کی گنجائش نہیں لیکن انہوں نے کہا کہ میں یہاں پھول کی پتیوں کی طرح رہوں گا ۔ (13)
چنانچہ کئی سلسلوں کے خلفاء اپنے اپنے سلسلوں کی جانب سے ایک ہی ولایت کے انچارج ہوتے تھے لیکن ایک ہی سلسلے کے خلفاء ایک دوسرے کی ولایت میں دخل نہیں دیتے تھے ۔ مثلاً جب فیروز شاہ تغلق ٹھٹھہ سے چلا اور سرپرستی پہنچا تو شیخ نصیر الدین چراغ دہلوی نے سلطان سے کہا :ٹھٹھہ سےیہاں تک میں نے دعا کی اور بادشاہ مع لشکر اور خزانے کی خیرت سے پہنچ گیا اب بہت سے قطب الدین منور کی ولایت شروع ہوتی ہے تو لہٰذا اب ان کی خدمت میں لکھ کر اجازت طلب کی جائے ۔ (14)
(5) مرشد یا شیخ کی عظمت کو بڑھانے کے لیے ان کے تذکروں میں خاص طور سے ان کی خاندانی حیثیت پر بڑا زور دیا گیا ہے ۔ اکثر بڑے بڑے صوفی شیخ و مرشد جنہوں نے صوفیاء کے سلسلوں کیے بنیاد رکھی ان کا تعلق خاندان سادات سے بتایا گیا ہے ۔ تاکہ ان کی شخصیت کو ان کے سہارے مزید ممتاز بنایا جائے اور انہیں عام مسلمانوں سے بلند مرتبت ظاہر کیا جائے اس خاندانی تعلق کی وجہ سے ان کے مریدوں اور معتقدوں میں ان کی ذات اور شخصیت کا اثر بیٹھ جاتا تھا ۔
(6) روحانی سلطنت کے ادارے کو مستحکم کرنے کی غرض سے رسومات و روایات کی بنیاد ڈالی گئی ۔ ان میں سب سے اہم رسم بیعت کی تھی ۔ جب ایک مرید اپنے مرشد سے بیعت کرتا ہے تو وہ مرشد کے حلقہ اطاعت میں داخل ہوجاتا ہے اور اس کے لیے یہ لازمی ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے مرشد کی اطاعت کرے اور مرشدکے سلسلے کی روایت کی پابندی کرے، بیعت کی رسومات ہر سلسلے کی علیحدہ علیحدہ تھی مثلاً چشتیہ سلسلے میں بیعت کے وقت مرید کے کان کے قریب تھوڑے سے بال کاٹ دیئے جاتے تھے اور مرید کو سلسلے کی ٹوپی پہنائی جاتی تھی ۔(15)
بیعت کی رسم کے پس منظر میں جو مقاصد کار فرماتھے ان کا مقصد یہ تھا کہ مرید کو مرشداور اس کے سلسلے میں ذہنی طور پر جکڑ لیا جائے تاکہ ان کی تعداد میں اضافہ ہو اور سلسلے کی قوت و طاقت بڑھے ۔
(7) مرشد کی مجلسوں میں بھی بادشاہ یا سلطان کے دربار کانقشہ نظر آتا ہے ۔ یہاں جو آداب و رسومات تھیں، ان میں اور بادشاہ کے دربار کے آداب و رسومات میں مماثلت تھی، مثلاً مرشد یا شیخ سب سے علیحدہ ممتاز جگہ پر مسند پر جلوہ افروز ہوتا تھا ۔ اسی طرح جیسے بادشاہ تخت پر بیٹھا تھا ۔ مجلس میں آنے والا ہر شخص خاموشی سے آتا اور مرشد کے سامنے جھک کر مرشد کے ہاتھ پیر یا آستین چومتا یا بعض حالات میں مرشد کے سامنے سجدہ کرتا اور اس کے قدموں پر سر رکھتا ۔ نظام الدین اولیاء کی خدمت میں جب مرید آتےتو زمین بوسی کرتے تھے،آپ فرمایا کرتے تھے کہ چونکہ شیخ کے روبرو ان کے مرید ایسا کرتے تھے اس لیے میں انہیں منع نہیں کرتا ۔ ایک مرتبہ ان کی مجلس میں ایک مسافر شام یا روم سےآیا جب اس نےمریدوں کو سجدہ کرتے دیکھا تو مریدوں کو ڈانٹا کہ سجدہ مت کرو کیونکہ شریعت میں ایسا کوئی حکم نہیں ’ اس پر نظام الدین اولیا نے فرمایا کہ گذشتہ امتوں میں سجدہ مستحب تھا چنانچہ رعایا بادشاہ کو اور امت پیغمبروں کو کرتی تھی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کےزمانے میں اس کا مستحب ہوناجاتا رہا ۔ لیکن یہ مباح او رمباح کو روکنا نہیں ۔(16) مرشد کی مجلسوں میں اس کا خیال رکھا جاتا تھا کہ خاموشی سے بیٹھا جائے نگاہیں نیچی رہیں، دائیں بائیں نہ دیکھیں ، کسی سے بات نہ کریں زور سے نہ کھانسیں  ،ہنسیں نہیں مرشد کی طرف پشت نہ ہو، وغیرہ وغیرہ نظام الدین اولیاء کے مریدوں کاکہناتھا کہ جب وہ ان کی مجلس میں ہوتے تھے تو ان کی مجال نہیں ہوتی تھی کہ سر اٹھا کر ان کے چہرے کی طرف دیکھیں ۔(17) مرشد خاص خاص لوگوں کی آمد پر کھڑے ہوکر استقبال کرتاتھا ورنہ مسند پر ہی بیٹھا رہتا تھا اس کے علاوہ یہ بھی دستور  تھا کہ آنے والا مرشد کی خدمت میں عقیدت کے اظہار کے طور پر انہیں نذر پیش کرتا تھا ۔(18)
اس کے علاوہ ان میں اور بادشاہ میں کئی لحاظ سے مماثلت تھی، جس طرح بادشاہ کی خدمت کے لیے کئی کئی ملازم اور خادم موجود تھے اسی طرح شیخ کی خانقاہ میں بھی اس کےذاتی کاموں کے لیے مریدوں کے فرائض ہوتے تھے جیسے وضو کرانا، مصلیٰ کی خدمت سنبھالنا اور ان کے کھانے او رکپڑوں وغیرہ کی دیکھ بھال کرنا ۔(19)
جس طرح بادشاہوں کے لکھنے کے لیے دربار میں مورخ ہوتے تھے اسی طرح شیخ کے حالات زندگی اور اس کے اقوال ان کے مرید لکھتے تھے جو ملفوظات کے نام سے مشہور ہوئے ان کی خانقاہوں کو بادشاہوں کے محلات سے تشبیہ دی جاسکتی ہے، مرنے کے بعد ان کے شاندار مقبرے تعمیر ہوتے تھے جہاں عوام زیارت اور برکت کی غرض سے آج تک جاتے ہیں ۔
(8) مرشد اپنی وفات سے پہلے اپنا جانشین منتخب کرتا تھا تاکہ اس کا سلسلہ بغیر کسی سربراہ کے نہ رہ جائے ۔ اس جانشینی کابھی کوئی خاص قانون نہیں تھا ۔ یہ جانشین کوئی بھی مرید ہوسکتا تھا ۔ سہر ورویہ سلسلے کے بزرگ بہاؤالدین ذکریا نےاپنے بعد اپنے لڑکے شیخ صدرالدین کو اپنا جانشین نامزد کیا۔ ہندوستان میں موروثی سجادہ نشین کی یہ پہلی مثال تھی ۔ (20) اس کےبعد دوسرے سلسلوں میں بھی یہ رسم چل نکلی ۔
جانشینی کے وقت اپنے جانشین کو اپنی خاص خاص چیزیں بطور علامت عطا کرتا تھا، جیسے سجادہ ، خرقہ ، دستار ، کھڑاؤں ، عصا ء ، قمیض اور چادر خواجہ معین الدین چشتی نے جب قطب الدین بختیار کاکی کو خلافت عطا فرمائی اور اپنا جانشین بنایا تو ان کے سر پر دستار باندھی، زرہ پہنائی اور اپنے مرشد کا مصلیٰ اور قرآن انہیں دیا ۔ نظام الدین اولیاء نے اپنے جانشین و خلیفہ شیخ نصیرالدین چراغ دہلوی کو خرقہ، عطائے مصلیٰ تشبیح اور لکڑی کا پیالہ دیا۔ جو انہیں اپنے مرشد فریدالدین گنج شکر سے ملا تھا (21) سجادہ نشینی کی رسم و تاجپوشی سے تشبیہ دی جاسکتی ہے۔ کیونکہ اس رسم کے بعد ہی ان کی حیثیت شیخ یا مرشد کی ہوتی تھی ۔
(9) مرشد اپنی روحانی سلطنت کو مختلف ولایتوں میں تقسیم کر کے وہاں انتظام و انصرام کے لیےاپنے خاص خاص مریدوں کو خرقہ عطا کر کے ’ بطور خلیفہ ان کا تقرر کرتے تھے خلیفہ مقرر کرنے کے تین طریقے تھے : خدا کی طرف سے الہام ہو کہ فلاں مرید کو خلیفہ بناؤ ،شیخ اپنے مرید کے احوال کو دیکھ کر فیصلہ کرے یا مرید سفارش کے ذریعے یہ منصب حاصل کرے۔ (22) خلافت کی باقاعدہ سند دی جاتی تھی اور اس کو یہ اختیار بھی دیا جاتا تھا کہ وہ دوسروں کو خلافت دینے کااہل ہے۔ خلیفہ کی طرف سے کوتاہی کی صورت میں اس سے ‘‘خلافت نامہ ’’ واپس بھی لیا جاسکتا تھا ۔ (23) مسند خلافت ملنے کے بعد اسے ساتھیوں اور حاضرین کی جانب سے مبارک باد دی جاتی تھی ۔ اس کے بعد وہ اپنے علاقے میں چلا جاتا اور اس علاقے کا روحانی سربراہ بن جاتا ۔
(10) خلافت عطا کرتے وقت مرشد یا خلیفہ کو خطاب بھی عنایت کرتا تھا ان خطابات میں بھی سیاسی سلطنت کے اثرات نظر آتے ہیں کیونکہ جس طرح سلاطین کے خطابات دین پر ختم ہوتے تھے صوفیاء کے خطابات بھی اسی طرح کے ہوتے تھے جیسے معین الدین ، جلال الدین ، نصیر الدین، اور نظام الدین وغیرہ ان کے علاوہ مریدوں اور معتقدوں کی جانب سے مرشد کوپر عظمت خطابوں سے مخاطب کیا جاتا تھا ۔ جیسے :
سلطان اولیا ء، محبوب سبحانی، غوث الاعظم، شیخ محی الدین ، عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ ، شیخ الشیوخ ، شہاب الملت ، شیخ شہاب الدین سہر وردی، شیخ المشائخ ضیاء الدین، معین الاولیاء ، سلطان کشور کشائے ولایت و کرامت ، خواجہ معین الدین حسن چشتی ، قطب المشائخ ، خداوند خلافت عظمیٰ ، خواجہ قطب الدین بختیار کاکی، سلطان التار کمین ،شیخ حمید الدین صوفی ۔
(11) صوفیاء کی روحانی سلطنت اور بادشاہ کی سیاسی سلطنت میں مماثلت اور تضاد دونوں ہی ملتے ہیں لیکن ان دونوں سلطنتوں کا انجام مختلف ہوا۔ بادشاہتیں سیاسی شعور کے ساتھ ساتھ کمزور ہوتی چلی گئیں ۔ اور زمانے نے بادشاہوں کے مطلق العنانیت کاخاتمہ کردیالیکن روحانی سلطنت آج بھی قائم ہے اور ایک مستحکم ادارے کی حیثیت سے موجود ہے، مرشد اورشیخ    آج بھی مطلق العنانیت کے ساتھ مریدوں کے ذہنوں پر حکومت کرتے ہیں اور ان کی رعیت آج بھی تحفے تحائف اور نذر و نیاز کی شکل میں انہیں خراج دیتی ہے۔ ان کی مجلسوں اور محفلوں کے آداب آج بھی وہ ہیں جو بادشاہوں کے دربار میں تھے ، اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ اس روحانی سلطنت کی بھی تسخیر کی جائے ۔
حوالہ جات:
(1) محمد ایوب قادری: مخدوم جہانیاں جہاں گشت ۔ کراچی ۔1963ء ۔ ص ۔ 132
(2) ایضاً : ص ۔133
(3) ایضاً : ص ۔133
(4) صباح الدین عبدالرحمان : بزم صوفیہ ۔ اعظم گڑھ ۔ 1949ء ۔ ص ۔ 198
(5) روضہ القیومیہ ۔ جلد اول۔ ص۔ 94۔ بحوالہ : شیخ محمد اکرم رود کوثر چوتھا ایڈیشن لاہور ۔1968ء۔ ص۔198
(6) سید محمد مبارک میر خورد : سیر الاولیا ء ( اردو ترجمہ) لاہور (؟) ص ۔ 549۔550
(7) ایضاً : ص ۔ 294۔293
(8) رود کوثر ص ۔247
(9) منہاج سراج : طبقات ناصری ۔ حصہ اول ( اردو ترجمہ لاہور ۔ 1975ء۔ ص ۔ 784 خلیق احمد نظامی : تاریخ مشائخ چشت ۔ اسلام آباد (؟) ص۔ 204
(10) حسام الدین راشدی : مرزا غازی بیگ ترخان اور اس کی بزم ادب ۔ کراچی 1970ء ص۔20
(11) حامد بن فضل اللہ جمالی : سید العارفین ( اردو ترجمہ) لاہور ۔ 1976ء ص۔ 151۔155
(12) بزم صوفیہ : ص 205
(13) ایضاً : ص ۔242
(14) خلیق احمد نظامی : سلطانین دہلی کے مذہبی رجحانات ، دہلی ۔ 1975ء ۔ص ۔393
(15) بزم صوفیہ : ص ۔500۔501
(16) سیر الاولیاء ص ۔298۔299
(17) ایضاً : ص ۔116
(18) سیر العارفین ص ۔102۔259
بزم صوفیہ ص 517۔518
(19)تاریخ مشائخ چشت ص۔ 287
(20) ردو کوثر ص ۔262
(21)سیر العارفین ص ۔ 40
(22) سیر الاولیا ء ص ۔303۔304
(23) تاریخ مشائخ چشت ص ۔ 246۔278۔279

No comments:

Post a Comment